اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)آشیانہ ہائوسنگ سکینڈل میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے فواد حسن فواد اس وقت نیب کی تحویل میں ہیں جو کہ عدالت کی جانب سے جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہیں۔ نیب کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ فواد حسن فواد نے غیر قانونی طور پر آشیانہ کا کنٹریکٹ اپنے
عہدے (سیکریٹری عملدرآمد برائے وزیراعلیٰ پنجاب) کا غلط استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرایا۔ نیب کی جانب سے گرفتاری کیلئے جو وجوہات عدالت میں پیش کی گئی تھیں وہ یہ تھیں کہ مارچ 2013ء کے دوران ملزم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری فواد حسن فواد (اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد) نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اس میں بدنیتی شامل تھی، انہوں نے پی ایل ڈی سی، بورڈ، کے اختیارات غیر قانونی طور پر حاصل کیے اور غیر قانونی ہدایات جاری کیں اور اس وقت کے سی ای او طہور قریشی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سید علی معظم پر دبائو ڈالا کہ وہ چوہدری عبداللطیف اینڈ سنز کو دیے گئے قانونی ٹھیکے کو منسوخ کریں۔ نیب نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ فواد حسن فواد نے سی ای او پر دبائو ڈالا کہ وہ ٹھیکہ منسوخ کریں۔ شہباز شریف، جنہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بھی بدنیتی سے ٹھیکہ منسوخ کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔نیب نے شریف اور فواد کو یہ پروجیکٹ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر رکھا ہے۔ تاہم اب اس کیس نے انتہائی ڈرامائی موڑ لے لیا ہے۔ روزنامہ جنگ میں دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے بتایاہے کہ گزشتہ روز پیر کے روز شہباز شریف اور فواد حسن فواد کیخلاف نیب کے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے
بنیادی کیس کو ایک قانونی دستاویز نے تباہ کر دیا ہے اور اس سے انکشاف ہوا ہے کہ پروجیکٹ کیلئے لطیف اینڈ سنز کا کنٹریکٹ منسوخ ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ٹھیکیدار اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایل ڈی سی) کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ دی نیوز کے پاس معاہدے کی نقل دستیاب ہے، اور یہ نیب کا کیس خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ معاہدے کی نقل پیر کے روز
لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل کی طرف سے پیش کی گئی، اس میں دونوں فریقین، لطیف سنز اور پی ایل ڈی سی، کے دستخط موجود ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 49؍ کروڑ 52؍ لاکھ 22؍ ہزار 824؍ روپے کے منصوبے پر عمل کیلئے 16؍ فروری 2013ء کو طے پانے والے معاہدے کو فریقین باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ختم اور
منسوخ کرتے ہیں۔ معاہدے پر 9؍ نومبر 2013ء کو دستخط کیے گئے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی منشا اور خوشی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ پر عمل کا معاہدہ ختم کرتے ہیں اور کسی بھی فریق کا دوسرے فریق پر کوئی دعویٰ یا ہرجانہ نہیں واجب الادا نہیں ہے۔ اس معاہدے کے منظرعام پر آنے کی وجہ سے نیب کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکریٹری
برائے وزیراعظم کے کیس کو نیا ڈرامائی موڑ مل گیا ہے۔ دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں معاہدے کی نقل پیش کیے جانے کے بعد نیب کا یہ دعویٰ مسترد ہو جاتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی کارروائی میں فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے انشکاف کیا کہ کالسنز (چوہدری لطیف اینڈ سنز) کا
ٹھیکہ منسوخ کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ 9؍ نومبر 2013ء کو پی ایل ڈی سی اور کالسنز نے ایک معاہدے کے تحت باہمی رضامندی سے کنٹریکٹ کو ہی منسوخ کر دیا۔ دی نیوز کے پاس اس معاہدے کی مستند نقل دستیاب ہے جو پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ باہمی معاہدے کی شرائط یہ ہیں کہ آشیانہ کی کنٹریکٹر کمپنی کالسنز فروری 2013ء میں تفویض کردہ تمام حقوق و مفادات سے
دستبردار ہو جائے گی۔ معاہدے کے تحت کالسنز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے وسائل کا دعویٰ کرے گی اور نہ ہی کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ اس کے عوض، پی ایل ڈی سی نے کالسنز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی 7؍ کروڑ 40؍ لاکھ (74؍ ملین) روپے کا زر ضمانت واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور کالسنز نے پی ایل ڈی سی کی
جانب سے دیئے گئے موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں دیے گئے 74؍ ملین روپے واپس کیے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کالسنز کے مستقبل کے ٹینڈرز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ سائٹ پر جو بھی کام ہو چکا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی ادائیگی سات دن میں کی جائے گی۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ کالسنز
نے 4؍ کروڑ روپے کا دعویٰ کیا اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے دعوے کا جائزہ لیتے ہوئے کالسنز کو 59؍ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جسے کالسنز نے قبول کیا۔ معاہدے کی تصدیق نوٹری پبلک کی جانب سے کی گئی ہے۔ فواد کے وکیل نے دلیل دی کہ جس وقت فریقین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا اس وقت فواد پنجاب میں کسی عہدے پر نہیں تھے بلکہ انہیں اپریل 2013ء میں وفاقی حکومت میں
ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کرنے کے معاہدے پر اس وقت کے پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو شاہد لطیف نے دستخط کیے تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ فواد نے سی ای او طاہر خورشید پر معاہدہ منسوخ کرنے کیلئے دبائو ڈالا، جبکہ طاہر خورشید باہمی معاہدے سے کئی ماہ قبل ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نیب اس کیس پر گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس اہم دستاویز کو کبھی سامنے نہیں لایا۔ معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو گرفتار کرنے کیلئے بتائی گئی وجوہات ختم ہو گئی ہیں اور ان کیخلاف نیب کے کیس کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔