لاہور (وائس آف ایشیا)آسیہ بی بی کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہو گئے جس کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی۔ حکومت نے دھرناقائدین سے مذاکرات کر کے احتجاجی مظاہرے تو ختم کروادئے تاہم اب سوشل میڈیا پر خبریں گردش کرنے لگ گئی ہیں کہ آسیہ بی بی کو بیرون ملک بھیج دیا گیا ہے۔
اسی متعلق گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی خوشنود علی خان کا کہنا تھا کہ میں اس بارے میں تحقیق کر رہا تھا کہ اس وقت آسیہ بی بی کہاں ہے اگر وہ ملتان میں ہے تو پھر اس تک پہنچنے کی اجازت دی جائے۔ خوشنو د علی خان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے آج آئی جی پنجاب جیل خانہ جات سے بات کی اور کہا کہ میں صرف ایک رپورٹر جیل میں بھیجنا چاہتا ہوں جوں صرف آسیہ بی بی کو ملے گا اور اس کی تصویر بنائے گا تاکہ افواہوں کا خاتمہ ہو۔آئی جیل خانہ جات نے کہا کہ آسیہ بی بی اپنے گھر والوں کے علاوہ کسی سے نہیں ملتی۔لیکن میں ایک بات دوں کہ آئی جی صاحب میں بہت ساری چیزوں کا گواہ ہوں۔میں تو چاہتا تھا کہ افواہوں کا خاتمہ ہو جائے۔کیونکہ اب مولانا فضل الرحمن نے بھی ملین مارچ کی بات کی ہے اور پہلے دھرنا دینے والے مظاہرین بھی دھرنا دینے کی بات کر رہے ہیں تو پھر ٹھیک کیا ہوا ہے؟۔خیال رہے ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آسیہ مسیح ملتان جیل کے ڈیتھ سیل میں قید ہیں۔ویمن جیل میں قید آسیہ بی بی کے قریب جیل عملے کو بھی جانے سے روک دیا گیا ہے۔ جیل عملے پر آسیہ مسیح کے پاس جانے پر پابندی عائد ہے۔آسیہ مسیح کو دئے جانے والے کھانے کی بھی مکمل چیکنگ کی جاتی ہے۔ آسیہ بی بی کی نگرانی پر مامور جیل عملے کی بھی مکمل اسکروٹنی کی گئی۔ ڈیتھ سیل کی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب ہیں۔