اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نوجوان کئی مرتبہ دوستوں سے شرط لگا کر کئی احمقانہ کام کر جاتے ہیں جن کا کئی مرتبہ ان کو انتہائی بھیانک خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ایک 19سالہ آسٹریلو ی نوجوان سیم بیلرڈ کے ساتھ بھی ہوا۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیم بیلرڈ ایک رگبی کا کھلاڑی تھا اور ایک دن اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی میں شریک تھا کہ اس دوران وہاں ایک
کیڑا نمودار ہوا جسے انگریزی میں سلینگ اور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ’گنڈویا، ملپ ‘کہا جاتا ہے ۔جو کہ ان دوستوں کے سامنے سے گزرا جس پر سیم کے ایک دوست نے چیلنج کیا کہ کوئی اس کیڑے کو کھا کر دکھا سکتا ہے؟ یہ کام کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔کیڑا کھاتے ہی اس کی حالت خراب ہو گئی اور دوستوں نے فوری طور پر اسے ہسپتال پہنچایا جہاں وہ چند گھنٹے بعد کومے میں چلا گیا اور ایک سال اسی حالت میں رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ ساری زندگی کیلئے اپنے جسم کو حرکت دینے سے معذور ہو گیا ہے۔ ڈاکٹری رپورٹس کے مطابق سیم نے جس کیڑے کو کھایا تھا وہ زہریلا تھا جسے کھانے سے سیم کے دماغ میں انفیکشن ہو گیا اور اُس کا جسم مفلوج ہو گیا۔ اگلے آٹھ سال اُس نے مفلوج حالت میں بستر پر گزارے اور گزشتہ جمعے کے روز یہ بدقسمت نوجوان 28 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک شخص کے دماغ کا ہنگامی آپریشن کر کے اس میں سے ایک زندہ کیڑا (ٹیپ ورم) نکالا گیا ہے۔آپریشن کے بعد لوئی اورٹیز ابھی زیر علاج ہیں۔لوئی اورٹیز کو ضلع ناپا کے ایک ہسپتال میں تب منتقل کیا گیا جب ان کے بقول ان کے سر میں شدید درد ہو رہا تھی۔دماغ کے سرجن سورین سنگیل نے لوئی کے دماغ کے ایک سکین میں کیڑے کے لاروا دیکھا اور لوئی کو بتایا کہ وہ
صرف 30 منٹ تک زندہ رہیں گے۔کیڑا ان کے دماغ میں ایک رسولی میں بڑا ہو رہا تھا جس نے ان کے دماغ میں خون کی گردش بند کر دی۔لوئی نے کہا ’میں نے کھڑے ہو کر الٹی کی۔ ڈاکٹر نے اس میں سے زندہ کیڑا نکالا جو ہل رہا تھا۔ میں نے کہا ا±ف، یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔‘اگست میں سرجری کروانے کے بعد ہسپتال میں لوئی اورٹیز کا علاج جاری ہےامریکہ میں بیماریوں کے روک تھام
کے قومی مرکز کے مطابق کئی مریضو کی آنتوں میں خنزیر کے گوشت کی وجہ سے پیدا ہونے والے پورک ٹیپ ورم کے خورد بینی انڈے موجود ہوتے ہیں اور یہ کیڑے کسی دوسرے شخص کے دماغ میں ناک کے راستے پہنچ کے اس بیماری کی وجہ بن سکتے ہیں۔جسم میں گھس کر ان انڈوں سے نکلنے والے ٹیپ ورمز جسم کے اندر رینگ کر دماغ کی طرف جاتے ہیں۔بیماریوں کے روک تھام کے
قومی مرکز کا کہنا ہے کہ ہر سال تقریباً 1000 لوگ اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔اگست میں سرجری کروانے کے بعد ہسپتال میں لوئی اورٹیز کا علاج جاری ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ وہ سیکرامینٹو سٹیٹ یونیورسٹی واپس جا سکیں گے جہاں ان کی پڑھائی کا آخری سال ابھی باقی ہے۔انھوں نے ویب سائٹ سی بی سی سان فرانسسکو کے ذریعے کہا کہ ’میرے لیے یہ زیادہ اطمینان کی بات ہے کہ میں اب تک زندہ ہوں۔ اگر میں نے زیادہ دیر کر دیتا تو شاید آج یہاں نہ ہوتا۔