اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گزشتہ دنوں آسیہ مسیح کی رہائی کا فیصلہ آنے کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس دوران جلائو ، گھیرائو اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے۔ حکومت نے نجی و سرکاری املاک اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنیوالوں کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور متعدد مقدمات درج کرتے
ہوئے سیکڑوںگرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ ایسے میں ایک بار پھرتنائو کی کیفیت محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ حکومت نے احتجاج کرنیوالی بڑی مذہبی جماعت تحریک لبیک کے ساتھ احتجاج اور دھرنے ختم کرانے کیلئے ایک معاہدہ کیا ہے جس میں آسیہ مسیح کی رہائی کے خلاف نظر ثانی کی اپیل پر اعتراض نہ کرنا، آسیہ مسیح کانام ای سی ایل میں ڈالنا، گرفتار افراد کی رہائی، مقدمات کی واپسی حکومت کی جانب سے عمل میں لائے جانے والے نکات ہیں ۔ اس حوالے سے گزشتہ روز وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جو کہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ دھرنا قیادت سے مذاکرات کرنیوالی حکومتی ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے۔ نور الحق قادری کا کہنا ہے کہ حکومت معاہدے پر جلد عملدرآمد کریگی۔ اس تمام حالات میں ملک کے نامور دانشور علی معین نوازش نے حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے احتجاج کرنیوالوں کو پاکستان کی طاقت اور حکومت کو ایسے افراد کو صحیح راستہ دکھانے کی تلقین کی ہے۔ علی معین نوازش اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف بھارت کے جرائم کی لمبی فہرست ہے لیکن چونکہ وہ دشمن ہے، اس لئے بھارت کی ان کارروائیوں کی اتنی تکلیف نہیں ہوتی لیکن جب اپنے ہی کوئی ایسی کارروائی کرتے ہیں، جس سے بھارت خوش ہوتا ہے تو اس کی تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔ بعض اوقات معصوم لوگ
غیر ارادی طور پر بھی ایسا کر گزرتے ہیں لیکن جوش میں اُن کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔گزشتہ دنوں میں نے عشق رسولﷺ میں پاکستانیوں کا جو جنون دیکھا، وہ قابلِ تعریف تھا۔ یقیناً یہ عشق ہمارے اور ہمارے ملک کے لیے ایک خزانہ ہے اور اس خزانے کو دیکھ کر میرا یہ یقین اور بھی پختہ ہو گیا ہے کہ اگر کبھی دشمن نے ہمارے ملک کے خلاف جارحیت کی تو یہ لوگ اپنے اس پیارے ملک‘
جو دین کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے لیکن ہمارے اس جذبے اور قربانی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو کچھ ایسے لوگ‘ جو پس پردہ کسی اور کے لیے کام کر رہے ہیں، اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ میں قطعاً کسی مخصوص طبقے کی طرف اشارہ نہیں کر رہا لیکن سوشل میڈیا پر جلتی پر تیل ڈال کر جذبات بھڑکانے کا
کام کرنے والوں نے ایسے مقاصد کے لیے خوب کام کیا ہے۔ اس لئے ہمیں اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں جو چاہے تعلیمی اداروں ، مدرسوں میں پڑھتے ہوں یا کاروبار اور کھیت و کھلیانوں میں کام کرتے ہیں اور جو ہمارا مستقبل ہیں،کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہو گا۔ کسی بھی مسئلے پر احتجاج کو نجی یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے جبکہ حکومت بھی اپنے اس خزانے کی قدر کرکے ان کی غلطیوں پر سزا کا ڈنڈا اٹھانے کے بجائے انہیں اپنا بنانے کی پالیسی بنائے اور اپنائے۔ مجھے یقین ہے کہ عشق و محبت کا یہ جذبہ ہمارے ملک کے فائدے میں استعمال ہو گا…!!