اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بین الاقوامی این جی اوز پر خلاف قانون پابندی عائد کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو نئی پالیسی بنا کر کابینہ سے منظوری کرانے کی ہدایت کر دی،ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ تحقیقات کے بعد74آئی این جی اوز کو پاکستان کے اندر کام جاری رکھنے کی اجازت دی
جبکہ27آئی این جی اوز کے کام کرنے پر پابندی عائد کی، متعدد آئی این جی اوز ملکی مفاد کی خلاف کام کر رہی تھیں،قومی سلامتی کے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس پر آئی این جی اوز کو کام کرنے سے روکا گیا،وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کمیٹی کو بتایا کہ آئی این جی اوز کو پاکستان کے قوانین کو تسلیم کرنا ہوگا، پاکستان کی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،پاکستان کے اندر متعدد آئی این جی اوز اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کر کے ملک مخالف اقدامات کرنے میں ملوث پائی گئی ہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہآئی این جی اوز کو آگاہ کیے بغیر کا کرنے سے روک دیا گیا،آئی این جی اوز نے 2017میں 483ملین ڈالرز خرچ کیے، وزارت داخلہ نے پابندی لگانے کی منظوری کابینہ سے نہیں کی۔پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر جہانزیب جمالدینی، سینیٹر ثنا جمالی، سینیٹر کیشو بائی، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری انسانی حقوق اور دیگر افراد نے شرکت کی۔یڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ جبری گمشدگیوںکا معاملی سنجیدہ ہے۔اس حوالے سے پاکستان کو بین الاقوامی معائدوں پر دستخط کرنے چاہئیں۔کمیٹی اجلاس میں وزارت داخلہ کی جانب سے بین الاقوامی
این جی اور (آ ئی این جی اوز) پرپابندی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ آئی این جو اوز کے معاملات کی چھان بین 2015سے شروع کی گئی۔ تحقیقات کے بعد74آئی این جی اوز کو پاکستان کے اندر کام جاری کرنے کی اجازت دی جبکہ27آئی این جی اوز کے کام کرنے پر پابندی عائد کی۔جن آئی این جی اوز کو کام کرنے سے روکا گیا ان کو 2ماہ کے اندر کان
ختم کر کے ملک چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ اگر این جی اوزچاہیں تو6ماہ بعد دوبارہ وزارت داخلہ کو درخواست کر سکتے ہیں۔جن آئی این جی اوز کو کام کرنے سے روکا گیا ان میں سے18نے اپیل کی جس پر سماعت جاری ہے۔قومی سلامتی کے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس پر آئی این جی اوز کو کام کرنے سے روکا گیا۔جن کو کام کرنے سے روکا گیا وہ ملکی مفاد کی خلاف کام کر رہی تھیں۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ ادارے حساس مقدمات کے خفیہ نقشے بنانے میں بھی ملوث پائے گئے۔وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ دور حکومت میں بھی این جی اوز کو ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔پاکستان نے دہائیوں سے بین الاقوامی این جی اوز کو کھلا ہاتھ دیے رکھا اور اب ان کو ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں تو واویلا مچایا جا رہا ہے۔پاکستان کے اندر متعدد آئی این جی اوز اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کر کے ملک مخالف اقدامات کرنے میں ملوث پائی گئی ہیں۔
کئی این جی اوز ایسی ہیں کو سیاسی مقاصد کیلئے پاکستانی عوام کو استعمال کر رہی ہیں۔پاکستان کے اندر جمہوریت آئی این جی اوز کی موجودگی کی محتاج نہیں ہے۔ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ایک این جی او نے سوشل ورک کی آڑ میں اسامہ بن لادن کو ٹریس کیا جس سے خیبر پختونخوا میں پولیو مہم کو دو سال نقصان پہنچا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سوال کیا
کہ وزارت داخلی کا کون سا قانون ہے جس کے تحت بین الاقوامی این جی اوز کو ریگولیٹ کیا جا رہا ہے۔بین الاقوامی این جی اوز کو ریگولیٹ کرنا وزارت انسانی حقوق کا دائرہ اختیار تھا لیکن وزارت داخلہ نے آئی این جی از پر پابندی لگاتے ہائے وزارت انسانی حقوق سے مشاورت بھی نہیں کی۔آئی این جی اوز کو بغیر وجوہات بتائے بغیر بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
آئی این جی اوز نے 2017میں 483ملین ڈالرز خرچ کیے۔وزارت داخلہ نے آئی این جی اوز کے کام پر پابندی لگانے کی کابینہ سے احکامات بھی نہیں لیے۔ کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے بھی آئی این جی اوز کو ریگولیٹ کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔شیریں مزاری نے کہا کہ آئی این جی اوز کو پاکستان کے قوانین کو تسلیم کرنا ہوگا۔ پاکستان کی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
کمیٹی نے اس پر ہدایت کی کہ وزارت داخلہ اس حوالے سے نئی پالیسی بنائے اور اس کو کابینہ سے منظور کرائے۔آئی این جی اوز کے معاملات پر وزارت انسانی حقوق کو بھی معاملات میں شامل کیا جائے اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل ان کی رائے لی جائے۔سراکاری اسکولوں میں اضافی فیس کے معاملے پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ37فیصد بچے پرایئویٹ سکولوں میں جاتے ہیں۔
ہر تین ماہ بعد فیس میں اضافہ کیا جاتا ہے جو والدین پر بوجھ ہے۔سپریم کورٹ میں اس حوالے سے مقدمے کے سماعت ہو رہی ہے اور وفاقی محتسب میں تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل کمیٹی بنائے گئی ہے جو معاملات کو حل کرے گی۔کمیٹی ارکان نے کہا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لیے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیتے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔کمیٹی میں پی ٹی وی کے
ملازمین کی پینشن کی عدم ادائیگی کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔چیئرمین پی ٹی وی نے کمیٹی کو بتایا کہ ملازمین کو پیشن ادا کی جا رہی ہے مسئلہ کموٹیشن کے اخراجات کا ہے۔ پی ٹیوی کے اخراجات اس کی آمدن سے زائد ہیں ۔ کل بجٹ کا76فیصد پیشنز کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے۔پی ٹی وی کئی سالوں سے نقصان میں چل رہا ہے۔سرکاری اداروں نے پی ٹی وی کو4ارب ادا کرنے ہیں جو ادا نہیں جا رہے۔320پنشنرز کو ایک ارب سے زائد کی رقم ادا کرنی ہے جس کیلئے ا قدامات کر رہے ہیں۔کمیٹی نے چیئرمین پی ٹی وی کو 15روز میں پنشنرز کو رقم کی ادائیگی کیلئے پلان بنا کر کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔(ع خ)