اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے ،امیر ترین خاندان کے سربراہ، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2001سے 2008کے دوران انکم ٹیکس ہی نہیں دیا، فلیگ شپ ریفرنس کی احتساب عدالت میں سماعت کے دوران پانامہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کا انکشاف۔نجی ٹی وی رپورٹ کے مطابق آج احتساب عدالت میں
فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران پانامہ جے آئی ٹی سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے بتایا کہ حسن نوازنے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی، نوازشریف نے بتایا وہ 2001 سے 2008 تک پاکستان میں نہیں تھے۔جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ نوازشریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا۔استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن نوازنے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی، حسن نواز نے بتایا ماڈل میں ہر کمپنی ایک مقصد کے تحت قائم کی جاتی ہے۔واجد ضیاء نے بتایا کہ ماڈل میں بنائی گئی کمپنیوں سے ٹیکس کی مد میں بچت ہوتی ہے، ماڈل کے تحت خریدار جائیداد خریدنے کے بجائے وہ ملکیتی کمپنی خرید لیتا ہے۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ کمپنی خریدنے سےساری جائیداد کی الگ الگ اسٹمپ ڈیوٹی نہیں ادا کرنی پڑتی، حسن نواز نے کہا انہوں نے کاروبارشروع کیا تو کئی بینک اکاؤنٹ کھولے۔استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن نوازنے کہا وہ جس بینک سے قرض طلب کرتے تو ذاتی اکاؤنٹ کھولنے کا کہا جاتا۔عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے 2001 سے یو کے میں مستقل سکونت حاصل کی۔جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ حسن نوازنے جےآئی ٹی کو بتایا وہ یوکے کم عمری میں چلے گئے تھے، حسن نوازنے بتایا تعلیم کے بعد بزنس شروع کیا اور وہیں رہے۔
واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ درست ہے فلیگ شپ کے قیام کے وقت حسن نواز کی عمر 25 سال تھی، حسن نوازنے بتایا انہوں نے وکیل کرنے کی اتھارٹی دی۔استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ حسن نوازنے بتایا حسن، حسین نوازکے نام سے پیش اتھارٹی لیٹرنہیں دیکھے، حسن نوازنے بتایا فلیگ شپ اوردیگر12کمپنیاں ایک ہی دورمیں بنیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔