اسلام آباد (این این آئی)جے یو آئی (س)کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کے شبہ میں 6 افراد کو گرفتار کر لیا گیا، گرفتار افراد کے فنگر پرنٹس لے لئے گئے۔نجی ٹی وی کے مطابق مولانا سمیع الحق کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں،ملزموں کی تلاش کیلئے مولانا سمیع الحق کے موبائل ڈیٹا سے مدد لی جا رہی ہے ، پولیس نے سربراہ جے یو آئی(س)کے قتل کے شبہ میں 6 افراد کو حراست میں لے لیا،
گرفتار افراد کے فنگر پرنٹس بھی لے لئے گئے،جمعیت علما اسلام(س ) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ان کے قتل میں ایک سے زائد افراد ملوث ہوسکتے ہیں۔پولیس حکام کے مطابق مولانا سمیع الحق کا قتل نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع گھر کی بالائی منزل پر ہوا ۔ پولیس حکام کے مطابق مولانا کا فون،عینک اور دیگر شواہد اکٹھے کرلئے گئے ہیں، قاتل نے ان کے چہرے اور سینے پر خنجر سے وار کئے۔پولیس حکام کے مطابق مولانا کے ساتھ ایک دیرینہ معتمد خاص رہتے تھے جو قتل کے وقت مارکیٹ گئے ہوئے تھے۔مولانا کی رہائشگاہ پر سی سی ٹی وی کیمرے نہیں،تفتیش کے لئے ہاؤسنگ سوسائٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد لی جائیگی۔یاد رہے کہ جمعیت علما اسلام(س)کے سربراہ اور ممتاز عالم دین مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں شہید ہوئے، ان کی عمر 80 برس سے زائد تھی اور وہ 1988 سے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم تھے۔مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامد الحق کے مطابق ان کے والد پر روالپنڈی میں ان کے گھر کے اندر حملہ کرکے شہید کیا گیا۔مولانا عصر کے بعد گھر پر آرام کر رہے تھے،ڈرائیور اور گن مین باہر گئے ہوئے تھے،حملہ آور چپکے سے ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور ان پر چھرے سے وار کئے۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہاکہ ڈرائیور اور گن مین گھر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ مولانا سمیع الحق خون میں لت پت پڑے تھے اور ان کی سانسیں چل رہی تھیں،
انہیں اسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ راستے میں دم توڑ گئے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس نے راولپنڈی میں اپنی رہائش گاہ کے اندرنامعلوم حملہ آوروں کی سفاکیت کانشانہ بننے والے جمعیت علما اسلام (س)کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی موت پر دہشت گردی ، فرقہ وارانہ اور ذاتی دشمنی کے زاویوں سے مختلف پہلوؤں پرتحقیقات کا دائرہ کار وسیع کر دیا ہے تاہم گھر کے اندر مولانا سمیع الحق کی پراسرار اور سفاکانہ موت نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے
جن میں پاکستان کی ایک بڑی مذہبی شخصیت کاگھر میں اکیلے قتل ہو جانااور گھر کے باہر کوئی سکیورٹی گارڈنہ ہونا انتہائی معنی خیزہے پولیس ذرائع اس بات کی جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ حملہ آوروں کا مولانا سمیع الحق سے قریبی تعلق ہو سکتا ہے جس سے وہ انتہائی آسانی سے مولانا سمیع الحق کے گھر کے اندر پہنچ گئے حالانکہ مولانا سمیع الحق وقوعہ سے چند گھنٹہ پہلے اکوڑہ خٹک راولپنڈی میں اپنی رہائشگاہ پہنچے روائتی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں آتشیں اسلحے کا استعمال کیا جاتا ہے
لیکن مولانا سمیع الحق پر چھریوں سے وار کئے گئے جو جان لیوا ثابت ہوئے جو اس شبہے کو مزید تقویت دیتا ہے کہ یہ روائتی دہشت گردی کی واردات نہیں بلکہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہے اورتفتیشی ٹیمیں اس پہلو کا بھی جائزہ لے رہی ہیں کہ حملہ آور چھریوں کے ہمراہ مولانا سمیع الحق کے گھر داخل ہوئے یا چھری بھی اسی گھر کی استعمال گئی فرانزک ماہرین نے مولانا سمیع الحق کے گھر سے ضروری شواہد حاصل کر لئے ہیں جنہیں رپورٹ کے لئے فرانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا تفتیشی افسران تمام پہلوؤں سے واقعے کاجائزہ لے رہے ہیں دوسری جانب مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کا موقف ہے کہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا کیونکہ مولانا سمیع الحق امریکہ کے تسلط سے افغانستان کو آزاد کرانا چاہتے تھے حامد الحق کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دھمکیوں کے حوالے سے آگاہ کر دیا تھا جبکہ دارلعلوم اکوڑہ خٹک میں بھی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی تھی لیکن مولانا سمیع الحق ذاتی طور پر سکیورٹی پسند نہیں کرتے تھے اور سفر میں بھی رفقا کار ساتھ ہوتے تھے ۔