رائے ونڈ ( این این آئی)اختتامی دعا کے بعد سینکڑوں گداگر وں کی یلغار ۔غیر ملکی مہمانوں سے ڈالر اور ریال مانگتے رہے ۔تفصیلات کے مطابق عالمی اجتماع کے آخری روز ریلوئے اسٹیشن ،تبلیغی مرکز بازار ،پنڈال روڈ،مین بازار سمیت دیگر علاقوں میں گداگروں کی بھرمار سے تبلیغی زائرین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گداگر غیر ملکی مہمانوں سے ڈالر اور ریال کا تقاضہ کرتے نظر آئے۔
جبکہ بیگر ہوم کا عملہ سیر سپاٹوں میں مصروف رہا۔ گداگروں کو کھلی چھٹی ملنے پر جہاں ملک کی جگ ہنسائی ہوئی ہے وہاں عوام کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ دریں اثناء عالمی اجتماع کے دوسرے مرحلہ میں غیر ملکی مہمانوں کی تعداد 30ہزار سے تجاو ز کرگئی ،حلقہ بیرون میں غیر ملکی مہمانوں کے قیام و طعام کیلئے وسیع ترین انتظامات کیے گئے ذرائع کے مطابق امسال اجتماع میں سب سے زیادہ ایران ، چین اور بنگلہ دیش کے مندوبین نے شرکت کی جن کے قیام وطعام پر خصوصی توجہ دی گئی تھی ادھر حلقہ خواص کے خاتمے کے بعد اہم شخصیات کی آمد نہ ہو سکی ذرائع کے مطابق امسال اجتما ع میں عرب شہزادوں نے بھی شرکت کی ہے تاہم انکی تعداد معلوم نہیں ہو سکی ۔اس سے پہلے رائیونڈ تبلیغی اجتماع کا پہلامرحلہ رقت آمیز دعا کے بعد اختتام پذیر ہوگیا، ،اسلام کی سربلندی اورملک کی ترقی وسلامتی کے لیے خصوصی دعا کرائی گئی،لاہور سمیت پنجاب، فاٹا اور بلوچستان کے علاوہ مختلف ممالک سے آئے لاکھوں فرزندان اسلام شریک ہوئے، اجتماع میں علما کرام نے شرکا کو قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی تلقین کی اوراچھی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے منع کرنے کا فلسفہ بیان کیا،اجتماع کے شرکا کو دین اسلام کی اہمیت اور نبی آخرالزماں کی زندگی کے بارے میں بتایا گیا۔ فرزندان اسلام نے بھی آئندہ زندگی دین سیکھنے اور سکھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے، دعا کے دوران شرکا اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے، اجتماع میں پاکستان اور امت مسلمہ کی نصرت و کامرانی کی دعائیں کی گئیں۔ تبلیغی اجتماع کی مختلف نشستوں سے خطاب کرتے مولانا محمد ابراہیم نے کہا کہ دین کیا ہے نبی پاکؐکی مبارک زندگی کے مطابق زندگی گزارنا ہی دین ہے دین کو زندگیوں میں لانے کے لئے اس کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہے تب جاکر یہ ہمارے سینوں میں اترے گا انسان اپنے کاروبار اور معاملات کے لئے شہر اور ملک چھوڑتا ہے ۔
صرف زندگی بہتر بنانے کے لئے حالانکہ یہ سراسر خسارے والا راستہ ہے اصل راستہ وہ ہے کہ جس پر چل کر ہماری دنیا بھی بن جائے اور آخرت بھی ،دین اصل ہے دنیا اصل نہیں ہے دنیا ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا وہ تباہ وبرباد ہوگیا دین پر چلنے سے اللہ پاک کی قربت حاصل ہوگی جب اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائیں گے تو کامیابی ہی کامیابی ہے اللہ کے ہاں دنیا کی کوئی قدرو اہمیت نہیں ۔دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے دنیا موت پر چھوٹ جاتی ہے آج کا انسان دنیا کے کام سیکھتا ہے۔
اس کے لئے دن رات ایک کردیتا ہے لیکن دین پر محنت نہیں کرتا دین سیکھنے سے آئیگا ۔مخلوق سے ہونے کا یقین اور اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہی درحقیقت اس ناکام مسلمان کا اصل روگ اور بیماری ہے اس بیماری کو ختم کرنے کے لئے اللہ سے ناطے کو جوڑنا ہوگا بے حیائی اور اسراف کو ترک کرنا ہوگا اللہ کے ذکر کرنے سے شفاء ہوتی ہے دنیا کا ذکر کرنے سے بیماریاں جنم لیتی ہیں ذکر اذکار کی محافل بپا کرنا ہوں گی آج امت چاروں اطراف سے آفات کا شکار ہیں ہماری بد اعمالیوں کی وجہ ہم تنزلی کا شکار ہیں ہر آدمی اپنا محاسبہ کرئے اپنے گریبان میں جھانکے سر سے لیکر پاؤں تک آقائے کائنات ؐکے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالیں دنیا و آخرت کی کامیابی یقینی ہے ۔
تبلیغی اجتماع کے آخری روز لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مزید کہا کہ دنیا دارالعمل ہے یہاں جو کچھ بوئیں گے وہی کل کو کاٹیں گے جتنی دیر یہاں رہنا ہے اتنی یہاں کی محنت کریں آخرت کی زندگی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے اس لئے وہاں کی تیاری کریں بنی نوع انسان مال ودولت کی حرص و ہوس میں اصل ذمہ داری سے غافل ہوچکا ہے دنیا کی رنگینی نے اصل کام سے توجہ ہٹا دی ہے اپنی زندگی کی سانسوں کو قیمتی جانتے ہوئے انکو دین کی خدمت میں وقف کریں آج کا مسلمان وہ وعدہ بھول چکا ہے ۔
جو عالم ارواح میں رب کائنات سے کرکے آیا ہے اپنی توانائیوں کو فضول سرگرمیوں میں صرف کرنے کی بجائے اس کو آخرت کی تیاری میں لگائیں دانا اور عقل مند وہ ہے جو آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کرئے دنیا کی زندگی آزمائش اور امتحانوں سے بھری پڑی ہے بے حیائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا امت کو خرافات او ر پریشانیوں سے نجات کے لئے سرور کائنات ؐکے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہوگا نجات اور کامیابی کاراستہ ہمیں اللہ کے نبیؐبتا گئے ہیں ہم جان بوجھ کر اپنی جانوں پر ظلم کرکے دینی تعلیمات سے روگردانی کرکے ذلت ورسوائی کے اسباب پیدا کررہے ہیں۔
آج ہماری اولادیں نافرمان اور کاروبار سے برکتیں اور رحمتیں اٹھ گئی ہیں ہمارے گھروں کا ماحول غیر اسلامی ہوچکا ہے آج کا مسلمان اپنے بچے کے روشن مستقبل کے لئے فکر مندہے اسکو اعلیٰ تعلیم دلوا رہا ہے جب کہ دینی تعلیم کو پس پشت ڈالا جارہا ہے کامیاب انسان وہی ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکر بھی کرئے ہر انسان کو جنت میں لیجانے کی تڑپ اور فکر سینوں میں پیدا کرنا ہوگی تبلیغی جماعت کی ترتیب پہلے سہ روزہ ،پھر عشرہ پھر چلہ لگا کر دین کو سیکھا جائے ہمیں زندگی کے دیگر معاملات کی طرح تبلیغ کے لئے وقت نکالنا چاہیے۔
اس سے ایک تو دین کی سوجھ بوجھ آئیگی دوسرا زندگی کا اصل مقصد واضح ہوگا۔اجتماع کے آخری روز بعدازنماز فجر مولانا خورشید احمد نے تبلیغی مندوبین کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ تبلیغ دین کا مشن ایک عظیم فریضہ ہے جسے ادا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا انتخاب کیا ہے ،تبلیغ دین کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے گئے اور سب سے آخر میں خاتم النبین پیغمبر امام کائنات حضرت محمد رسول اللہؐکو دنیا کی رہنمائی کیلئے مبعوث فرمایاگیا ۔
پیارے آقاؐ نے بھی دین الٰہی کی دعوت دینے کے دوران بے پناہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچانے والوں کو مصائب جھیلنا پڑ تے ہیں ،افضل ہیں وہ انسان جو انسانیت تک اللہ کا پیغام پہنچا نے کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ کر اور کاروبار کو ترک کرکے اپنے آپ کو مصیبتوں میں ڈال کر دعوت و تبلیغ کا عظیم مشن انجام دیتے ہیں انہوں نے مندوبین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اللہ کے راستے میں جان،مال اور وقت لگانے والوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور اس کے عوض دنیا اور آخرت کی کامیابیاں انہیں نصیب کردیتے ہیں۔
اس لئے دل شکستہ ہونے کی بجائے دعوت کے کام کو اپنائے رکھیں اللہ غیبی طاقت سے آپ کی مدد کرے گا ۔،اجتماعی دعا میں شرکاء کی تعداد کئی لاکھ بڑھ جاتی ہے ،تبلیغی اجتماع کے دوران اللہ اور اس کے پیارے رسول ؐ کا پیغام عام کیا جاتا ہے ،نفرت آمیزایسا کوئی لفظ ادا نہیں کیا جاتا جس سے کسی بھی مسلک کی دل آزاری ہو ،تبلیغی اجتماع میں حاجی عبدالوہاب کی دعا کے علاوہ شرکاء مولانا طارق جمیل کا بیان سننے میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔
اجتماعی دعا کے دوران مولانا محمد ابراہیم نے اللہ کی وحدانیت بیان کی ان کا کہنا تھا کہ کامل انسان وہ ہے جس کے دل میں اللہ کے ایک ہونے اور سب کچھ اسی کی جانب سے ہونے کا یقین پختہ ہوجائے ،انہوں نے کہا کہ اللہ نے اپنے پیارے نبیؐ کے طریقوں پر چلنے میں کامیابی رکھی ہے ،انہوں نے کہا کہ آج کل کی جدید دنیا کے جدید تقاضوں نے حضرت انسان کو اللہ سے دور کردیا ہے ،سکون دولت، اولاد اور رتبے میں نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کے ذکر اور مظلوموں کے کام آنے میں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد اللہ کی عبادت اور مخلوق خدا کی خدمت ہے ،امیر ہونے اور تعلیم یافتہ ہونے سے جنت نہیں ملے گی ،اللہ کو غرور پسند نہیں ،عاجزی اختیار کرنے میں راحت ہے ،آخری دعا میں دنیا بھر کے مصیبت زدہ مسلمانوں کے لئے خاص طور پر ملکوں کے نام لیکر دعا کی گئی ،انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دین کی سمجھ عطا کردے ،، پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی عزت و تکریم کو محفوظ بنادے۔
امت کے گناہوں سے درگزر فرماکر اپنی رحمتوں کا نزول کردے،امت محمدیہؐ کے درمیان اختلافات ختم کرکے اسے امت واحدہ بنادے،مسلمانان عالم کو تبلیغ کی برکات سے دین الٰہی پر چلنے والا بنادے ،اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے امت مسلمہ پر مہربانیوں کے دروازے کھول دے ،دوزخ کے بھیانک عذاب سے بچا کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمادے، انہوں نے فرمایا کہ دنیاوی لذتوں میں گم ہوکر امت محمدیہؐ دین الٰہی سے دور جاچکی ہے ،تبلیغ کا عظیم مشن بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کیلئے ہے ۔
عظیم ہیں وہ لوگ جو خالص اللہ کی رضا کیلئے اپنے گھر بار چھوڑ کر امام کائنات حضرت محمد رسول اللہؐکی سنتوں کو ہر انسان تک پہنچانے کی سعی کررہے ہیں ،پوری کائنات میں مسلمانوں کی حالت زار پر انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی عزت وتکریم صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی مکرم ؐکے طریقوں پر زندگی گزارنے میں ہے جب سے امت محمدیہ نے قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے اغیار کے اقوال پر عمل کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے ذلت و خواری ان کا مقدر بنی ہوئی ہے ،اگر مسلمان دنیا بھر میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بارگاہ الٰہی میں رو رو کر اپنی سابقہ گناہ آلود زندگیوں سے توبہ کریں اور آئندہ سے اپنے تمام معاملات قرآن و سنت کے مطابق ادا کرنے کا عہد کریں ،اللہ بڑا غفورورحیم اوربخشنے والا مہربان ہے امت محمدیہ ؐ پر اپنے انعام وکرام کا نزول کردے گا ۔