راولپنڈی ( آن لائن)راولپنڈی پولیس نے جمعیت علما اسلام (س)کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے سفاکانہ قتل میں دہشت گردی کے عنصر کو مسترد کردیاہے جس کے بعد مقدمہ کے اندراج میں دہشت گردی کی دفعات کے بجائے قتل اور گھر میں زبردستی گھسنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں جبکہ ہومیسائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ (HIU)نے موقع سے تمام شواہد اکٹھے کر کے ہر پہلو سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے
سب انسپکٹر جمیل کی سربراہی میں ایچ آئی یوکی تفتیشی ٹیم نے جائے وقوعہ سے خون کے نمونے ، کنگھی، ٹوتھ برش ،شیشہ ، انسانی بال ،خون آلود چادر ، کمبل،تکیہ ، مولانا کی عینک اور تولئے سمیت قبضہ میں لئے گئے دیگر شواہدسائنسی تجزیئے کے لئے پنجاب فرانزک لیب ٹھوکر نیاز بیگ بھجوا دیئے ہیں جبکہ حملہ آوروں کے فنگر پرنٹ بھی نادرا کو بھجوا دیئے گئے ہیں ذرائع کے مطابق معاملہ بظاہر دشمنی یا دیرینہ عداوت کا نتیجہ لگتا ہے تاہم فی الوقت کوئی بات حتمی نہیں ہے ابتدائی تحقیقات کرنے والوں کا خیال ہے کہ قاتل کا گھر میں آنا جانا تھاگارڈ اور ملازمین گھر سے باہر جاتے ہوئے دروازہ بند کر کے گئے ایسے میں حملہ آور رہائش گاہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوا اور مولانا پرچھریوں کے پے در پے وار کئے پولیس نے گھرمیں موجود ملازمین کے بیان بھی ریکارڈ کرنے کے علاوہ فرانزک ایکسپرٹ اور انسداد دہشت گردی فورس نے جائے وقوعہ سے خون کے نمونے، فنگر پرنٹس اور شواہد اکٹھے کرلئے ہیں اسی طرح تحقیقاتی ٹیم نے ابتدائی طورپرسی سی ٹی وی فوٹیج سے اہم معلومات حاصل کر لیں ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق نے 6 بج کر 40 منٹ پر سوسائٹی کی سکیورٹی کو فون کیا تھاجبکہ زخمی حالت میں مولانا سمیع الحق نے سوسائٹی کی سیکورٹی کو خود فون کیا تھا فون کرنے کے بعد ایمبولینس گھر پہنچائی گئی تھی اورگھر سے ہسپتال منتقلی تک مولانا سمیع الحق زندہ تھے تاہم نجی ہسپتال میں پہنچنے سے کچھ دیر قبل ہی خالق حقیقی سے جا ملے ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مولانا سمیع الحق نے ایمبولینس کے عملہ کو قاتلوں کے متعلق آگاہ کیا تھا جس پرپولیس نے ایمبولینس کے عملہ کو بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیاہے