اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)مولانا سمیع الحق کو گزشتہ روز راولپنڈی میں ان کے گھر پر چاقوؤں کے وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کا کہنا تھا کہ والد گھر پر آرام کر رہے تھے جبکہ ڈرائیور اور گن مین گھر سے باہر گئے ہوئے تھے اور جب وہ واپس آئے تو مولانا کو بستر پر خون میں لت پت پایا۔پولیس حکام کو مولانا کے قتل میں ایک سے زیادہ افراد کے
ملوث ہونے کا شبہ ہے اور پوچھ گچھ کے لیے مولانا کے دو ملازمین کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔دوسری جانب تفتیشی افسران نےمولانا سمیع الحق کا فون، چشمہ اور دیگر چیزیں بھی قبضے میں لے کر فنگر پرنٹس حاصل کرلیے ہیں جبکہ تفتیش کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد لی جارہی ہے۔مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ ان کے بیٹے حامد الحق کی مدعیت میں تھانہ ایئرپورٹ میں درج کرلیا گیا۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق مولانا سمیع الحق پر حملہ شام ساڑھے 6 بجے ہوا اور ان کے پیٹ، دل، ماتھے اور کان پر چھریوں کے 12 وار کیے گئے۔حامد الحق کا مزید کہنا تھا کہ وہ مولانا سمیع الحق کا پوسٹ مارٹم نہیں کرانا چاہتے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا سمیع الحق کے قتل کی تفتیش سنگین جرائم کی تفتیش کرنیوالے یونٹ کے حوالے کی گئی ہیں۔ تفتیش کاروں نے ٹیلی فون اور موبائل فون کا ڈیٹا بھی حاصل کر لیا ہے جس سے پتہ چل سکے گا قتل سے پہلے مولانا سمیع الحق کو کہاں سے کال آئی اور انہوں نے کسے کال کی تھی۔ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہےکہ مولانا سمیع الحق کے قاتل جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے اور سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت کسی بڑے المیے سے کم نہیں، وہ جید عالم دین اور ایک مدبر سیاستدان تھے، ہم ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔