لاہور (آن لائن) صوبائی وزیر سکولز ایجوکیشن مراد راس نے کہا ہے کہ سابقہ دور حکومت میں سیاسی مقاصد ، اقرباء پروری اور کرپشن کی خاطر سکول ایجوکیشن سیکٹر کوتباہ و برباد کر دیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے پیارے وطن کے لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اورسرکاری سکولوں میں تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔موجودوہ حکومت اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے پانچ سالہ روڈ میپ متعین کر رہی ہے تا کہ ہم اپنے تعلیمی نظام عالمی معیار کے مطابق ڈھال سکیں۔
یہ بات انہوں نے یہاں 90شاہراہ قائداعظم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ صوبائی وزیر مراد راس نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پارٹنر سکولز کو 550روپے فی طالبعلم جبکہ منظور نظر این جی اوز کو 715روپے کی اضافی رقم ادا کی گئی جس سے محکمہ سکولز ایجوکیشن کو کو کروڑوں روپے ماہانہ کا نقصان ہوا۔سابقہ حکومت نے پیف میں لاکھوں روپے تنخواہ پر من پسند افراد کو بھرتی کیا، یہاں تک کہ ایک ڈائریکٹر کو سرکاری نوکری کے دوران ہی بھرتی کر لیا گیا اور یہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعدتمام ریکارڈ جلا دیا گیااور بعدازاں ڈی ایم ڈی کی ایک پوسٹ تخلیق کر کے انہیں اس نئی آسامی پر بھرتی کرلیا گیا۔پیف میں برانچ کی سطح پر ایگزیکٹو اسسٹنٹ آفیسر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈائریکٹر اور ڈی ایم ڈی کی پوسٹیں موجود ہیں ۔یہ واحد ادارہ ہے جہاں برانچ کی سطح پر ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کی پوسٹیں تخلیق کی گئیں تا کہ من پسند افرا د کو نوازا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ پیف کے ایم ڈی کو سات لاکھ 32ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پربھرتی کیا گیا۔اسی طرح ڈی ایم ڈی کو پانچ لاکھ85ہزارروپے ، ڈائریکٹر کوتین لاکھ 14ہزار روپے ، ایڈیشنل ڈائریکٹر کو دولاکھ 50ہزار روپے کی ماہانہ بیسک تنخواہ پر بھرتی کیا گیا۔ اس کے علاوہ 65ہزار روپے کار الاؤنس اور پانچ ہزار روپے موبائل الاؤنس بھی دیئے گئے۔ پیف میں انٹرنشپ کے نام پر پچاس سے ساٹھ من پسند افراد کو تیس ہزار روپے ماہانہ پر رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فاؤنڈیشن کے پارٹنر سکولوں میں جعلی انرولمنٹ کی بھرمار ہے ۔اکثر بچے گورنمنٹ اور پیف دونوں سکولوں میں داخل ہیں اور جعلی طریقہ سے سرکاری رقم وصول کی جارہی ہے۔سکول سے خارج ہونے کے بعد بھی پیف کی رقم جاری رہتی ہے ۔اس طرح گزشتہ حکومت نے پورے پنجاب میں ہر شعبے میں فراڈ کئے۔صوبائی وزیر مراد را س نے کہا کہ پیف میں ٹریننگ کے نام پر اضافی کتابیں چھاپی گئیں جو ابھی تک سٹور میں پڑی ہیں۔ پچاس لاکھ روپیہ کرایہ پیف کی بلڈنگ کی مد میں دیا جارہا ہے
جبکہ جوہرٹاؤن میں 8کنال جگہ ہونے کے باوجود بلڈنگ نہیں بنائی گئی۔ اسی طرح قائداعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کے تحت ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن پروگرام میں پچھلے پانچ سالوں میں تقریبا ستر کروڑ روپے حکومت پنجاب سے جاری کروائے گئے اور انہیں بے دریغ استعمال کیا گیا اور کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی۔سابق وزیرتعلیم رانا مشہود نے گریڈ19کے افسر ایوب بلال کو ہٹا کر اپنے منظور نظر گریڈ 17کے کنٹریکٹ ملازم کو ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن کے سربراہ کے طور پرلگا دی۔انہوں نے کہا کہ
سابقہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے چھ دن بعد مذکورہ کرپشن کا ریکارڈ جلانے کی کوشش کی گئی جس کی مکمل انکوائری کروائی جائے گی۔اسی طرح قائد اعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کی درجنوں لگژری سرکاری گاڑیوں کو ناجائز طور پراستعمال کیا گیا ۔ ان گاڑیوں میں سے دو لینڈ کروزر 4200ccسمیت چار گاڑیاں سابق منسٹر رانا مشہود کے ذاتی استعمال میں رہیں اور ما تحت افسران بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ۔انہوں نے کہا کہ قائد اعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ میں 70بولان گاڑیاں،4000کمپیوٹرز ،
2000پرنٹرز ،2000فوٹو کاپی مشینز سمیت مختلف چیزیں خورد برد کر لی گئیں یا ذاتی استعمال میں رہیں۔ان اشیاء کو ریکور کر کے سرکاری سکولوں اور لائبریریز کے استعمال میں لایا جائے گا ۔اسی طرح پنجاب ایگزمینیشن کمیشن میں بھی مختلف نوعیت کی کرپشن کی گئی ۔ پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی تاریخ میں پہلی بار سابقہ حکومت کے 2017ء کے ٹینڈرز جو کہ اب کیے گئے اس میں 57کروڑ روپے سے زیادہ بچت کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بصیرا ٹاؤن مظفر گڑھ میں سابقہ وزیر تعلیم کی منظور نظر این جی او کے سکول کو فی طالبعلم 25ہزار روپے ماہانہ ادا کیا جاتا تھا ۔اس سکول کی بلڈنگ برادر اسلامی ملک ترکی کے تعاون سے بنائی گئی تھی
اور اس این جی او کو سب سے زیادہ سکولز الاٹ کیے گئے تھے ۔ اس این جی او نے حکومت نے تقریباََ چار کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔ قبل ازیں صوبائی وزیر سکولز ایجوکیشن مرادراس نے پنجاب کے سرکاری سکولوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کی ۔اجلاس کے دوران پنجاب کے سرکاری سکولوں کے تنظیمی ڈھانچے ، کارکردگی اور درپیش مسائل کے حل سے متعلق مختلف تجاویزپر غورو خوض کیا گیا۔اجلاس کے دوران سرکاری سکولوں میں کوالٹی ایجوکیشن کی فراہمی، ، ڈبل شفٹ کے اجراء، کلین اینڈ گرین پروگرام، لڑکیوں کے سکولوں میں واش پروگرام،ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن، سکول مینجمنٹ کونسلز کو فعال کرنے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال اور عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی سے متعلق مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔