اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) میری بیٹی گاڑی میں بیٹھنے لگی تو نشے میں دھت پولیس والے نے اس کے ساتھ شرمناک سلوک کیا، اس بارے میں خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط بات ہے کہ ہر سال پیدل دربار پر جانا پڑتا ہے بلکہ یہ زندگی میں ایک بار ہوتا ہے، انہوں نے بتایا کہ میں اپنی واک کر چکا ہوں جبکہ میری بیٹی اور بیٹے نے پہلی بار یہ واک کی۔
انہوں نے بتایاکہ لاہور سے پاکپتن کا سفر چھ دن میں ہوتا ہے، میرا بیٹا اور بیٹی یکم اگست کو عصر کے بعد اپنے گھر سے نکلے، وہ دونوں گرمی ہونے کی وجہ سے رات کو زیادہ سفر کرتے تھے اور اس دوران میں اپنی گاڑی ان سے آگے رکھتا تھا تاکہ ان پر لائٹ نہ پڑے اور بے پردگی بھی نہ ہو۔ انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ 5 اگست کی رات کو ایک بجے جب میری بیٹی اور بیٹا پاکپتن کی حدود میں داخل ہوئے تو پولیس کی ایک گاڑی میری بیٹی کے پاس آئی اور پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ بی بی ادھر ہی رک جاؤ۔ میری بیٹی پولیس والوں کو دیکھ کر تھوڑا پریشان ہوئی کیونکہ میرا بیٹا اس وقت اس سے تھوڑا آگے چل رہا تھا۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ گاڑی روک کر تین سے چار پولیس والے گاڑی سے باہر آئے اور میری بیٹی سے سوالات شروع کردیے جس پر اس نے اپنے بھائی کو آواز دے کر بلایا۔ انہوں نے بتایا کہ میرا بیٹا ابراہیم ان پولیس والوں سے بات کرنے لگا اور اپنی بہن کو اس نے کہا کہ آپا آپ جا کر گاڑی میں بیٹھ جائیں۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ میری بیٹی جیسے ہی جانے لگی تو پولیس والے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور انتہائی گندی زبان اختیار کرتے ہوئے اسے وہیں رکنے کا کہا، اس وجہ سے پولیس والوں اور میرے بیٹے میں بحث شروع ہوگئی۔ اس موقع پر میرے بیٹے ابراہیم نے فون کرکے مجھے بلا لیا، جب میں وہاں پہنچا تو میری بیٹی گاڑی میں بیٹھ کر رو رہی تھی، میری بیٹے نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں اور نشے میں ہیں۔
جب میں پولیس والوں کے پاس گیا تو اس وقت تک ایس ایچ او طارق بھی وہاں آ چکے تھے، اس نے مجھے پہچان لیا اور مجھ سے معافی مانگنے لگا۔ انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی اور بیٹا لاہور، قصور اور اوکاڑہ سے گزرے لیکن وہاں کی پولیس نے انہیں نہیں روکا، پولیس کی گاڑیاں آتی تھیں اور ان سے کچھ فاصلے پر چلتی رہتی تھیں مگر پولیس والوں نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔ جیسے ہی ان کی حدود ختم ہوتی تھی وہ واپس چلے جاتے تھے۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ اگلے دن میں نے ڈی پی او رضوان گوندل کو فون کرکے سارے واقعہ کے بارے بتایا، ڈی پی او نے کہا کہ میں دیکھ لیتا ہوں مگر انہوں نے کچھ بھی نہ کیا،
پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے دوسرے واقعے کے بارے میں انہوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ 23 اگست کو عید کے روز ہم رات کو دربار شریف سے ساڑھے 12 بجے نکلے اور اپنے گاؤں جا رہے تھے کہ پولیس کی گاڑی آ گئی اور ان لوگوں نے آتے ہیں مجھ سے کہا کہ مانیکا صاحب نیچے اتریں، ہم نے آپ کی تلاشی لینی ہے، انہوں نے کہا کہ ڈی پی صاحب کا حکم ہے کہ آپ کی تلاشی لی جائے۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ اس وقت میری دو بیٹیاں، نواسے نواسیاں اور میری بیوی گاڑی میں موجود تھے۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ میں نے اس موقع پر ڈی پی او کو فون کیا پہلے تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا مگر کچھ دیر بعد انہوں نے فون سنا اور پولیس اہلکاروں کو واپس جانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈی پی او کے حکم کے باوجود وہ پولیس والے میری گاڑی کے آگے سے نہ ہٹے اور سگریٹ سلگا کر کھڑے ہو گئے اور ان میں سے ایک نے ویڈیو بنانا شروع کر دی، جس پر میں نے گاڑی کی لائٹ بند کرکے اسے ایسا کرنے سے منع کیا، انہوں نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے پیچھے بیٹی ہوئی میری نو سال کی بیٹی سمیت تین لوگوں سے بدتمیزی کی۔