اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی انصار عباسی نے اپنے آج کے کالم میں وزیراعظم عمران خان کی سوشل میڈیا پر پھیلائی جانیوالی خبروں پر یقین کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ انصار عباسی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ 2014 کا جب دھرنا اپنے عروج پر تھا تو اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے کوئی پندرہ بیس صحافیوں ، کالم نگاروںاور اینکر پرسنزکی وزیر اعظم ہائوس
میں اُسی طرح ملاقات ہوئی جیسے وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے حال ہی میں صحافیوں سے ملاقات کی۔ ان دونوں ملاقاتوں کے لیے صحافیوں کو دعوت حکومت کی طرف سے ہی دی گئی۔ جن افراد کا میڈیا سے تعلق ہے یا جو میڈیا کے کام کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے ایسی ملاقاتیں معمول کا حصہ سمجھی جاتی ہیں لیکن 2014کی ملاقات جس میں مجھ سمیت نسیم زہرہ، طلعت حسین، حامد میر، سلیم صافی، شاہزیب خانزادہ، جاوید چوہدری، مظہر عباس، بابر ستار، اعجاز حیدر صاحبان وغیرہ شامل تھے، اُس پر پہلے ایک ٹی اینکر نے یہ الزام لگایا کہ جو صحافی وزیر اعظم کو ملے اُنہیں کروڑوں روپے دیئے گئے۔ اس کے کوئی ایک دو دن کے بعد عمران خان نے کنٹینر پر تقریر کرتے ہوئے یہی الزام دُہرادیا۔ عمران خان نے صحافیوں، کالم نگاروں اورمیڈیا پر یہ بھی الزام لگایا تھا کہ ان کو آئی بی نے نواز شریف کے حکم پر دو ارب اور ستر کروڑ روپے بانٹے تاکہ تحریک انصاف کے دھرنے کو ناکام بنایا جا سکے۔ اگست 2018 کے انتخابات جیتنے کے بعد میری جنگ گروپ کے چند دوسرے احباب سمیت عمران خان صاحب سے اُن کی بنی گالہ رہاشگاہ میں ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے اپنے سمیت صحافیوں پر اسی الزام کے متعلق بات کی تو خان صاحب نے کہا کہ اُن کے پاس تو آئی بی (Intelligence Bureau) کی رپورٹ تھی میں نے اُن سے عرض کیاکہ سوشل میڈیا
پر پھیلائی جانی والی وہ رپورٹ جعلی تھی۔ ہماری اس ملاقات کے چند دنوں کے بعد خان صاحب نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد یہ اعلیٰ ترین حکومتی عہدہ سنبھال لیا۔ جیو سے منسلک سینئر صحافی اعزاز سید نے اپنے ایک حالیہ کالم میں انکشاف کیا کہ 2018 کے انتخابات جیتنے کے بعد آئی بی کے اُس وقت کے سربراہ شجاعت اللہ قریشی (جنہیں نگراں حکومت نے تعینات کیا تھا)
اپنے اسٹاف افسر کے ساتھ عمران خان صاحب سے بنی گالہ ملنے آئے جس کا مقصد آئندہ وزیر اعظم کو آئی بی کی انسداد دہشتگردی کے شعبے میں حاصل کی گئی کامیابیوں پر بریفنگ دینا تھا۔بریفنگ کے بعد خان صاحب نے آئی بی کے سربراہ سے کہا کہ یہ بتائیں کہ اُن کے دھرنے کے دنوں میں نواز شریف دور کے آئی بی چیف آفتاب سلطان نے کس کس صحافی کو پیسے دیئے اور خفیہ فنڈ کہاں کہاں خرچ کیا گیا؟
آئی بی چیف نے خان صاحب سے کہا کہ آپ وزیر اعظم کا منصب سنبھال رہے ہیں اس لیے اب آئی بی کا سارا ریکارڈ آپ دیکھ سکتے ہیں، آئی بی نے کسی صحافی، اینکر یا کسی غیر ضروری جگہ کوئی رقم تقسیم نہیں کی البتہ آئی بی کی استعداد کار میں اضافہ کے لیے ایکوئپمنٹ ضرور خریدا گیا ہے۔ اس پر عمران خان بولے میں نے آفتاب سلطان (سابق آئی بی چیف) کی تعریف سنی ہے
مگر حیران ہوں کہ وہ شریف خاندان کے فاشسٹوں کے ساتھ کیسے رہے۔ امید ہے کہ اب وزیر اعظم عمران خان کو یقین ہو گیا ہو گا کہ جو الزامات اُنہوں نے 2014 کے دھرنے کے دوران صحافیوں کے خلاف لگائے اُن میں کوئی سچائی نہیں تھی۔ اگر اب بھی کوئی شک ہو تو خان صاحب اپنی مرضی سے لگائے گئے موجودہ آئی بی چیف سے بھی دوبارہ تصدیق کر لیں کہ دھرنے کے دوران یا نواز شریف
سمیت ماضی کی کسی بھی حکومت کے دوران کس کس صحافی کو کسی بھی مقصد کے لیے پیسے دیے گئے لیکن اگر جواب وہی ملا جو اُن کو ایک آئی بی چیف دے چکے تو پھر وزیر اعظم صاحب اگر معذرت نہ بھی کریں تو کم از کم یہ تو تسلیم کر لیں کہ اُن کی طرف سے لگائے گئے الزامات درست نہ تھے اور یہ کہ اُن کے الزامات کا ذریعہ fake news ہیں جس وہ خود بھی شکار ہوتے رہتے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران دی نیوز کی انویسٹی گیشن ٹیم کے چند دوسرے ممبران کے متعلق بھی تحریک انصاف اور عمران خان صاحب الزامات لگاتے رہے۔نومبر 2014 میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’میرا استعفیٰ‘‘ میں نے خان صاحب اور دوسروں کو ایک کھلا چیلنج دیا تھا کہ اگر وہ ہم میں سے کسی کے متعلق بھی یہ ثبوت فراہم کردیں کہ کسی نے پیسہ لے کر ان کے خلاف لکھا تو یہ میرا وعدہ ہے
کہ جس پر یہ الزام ثابت ہو گا اُس کے لیے دی نیوز کی انویسٹی گیشن ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہو گی اور اگر میں ایسا نہ کر سکا تو میں استعفیٰ دے کر علیحدہ ہوجائوں گا۔ خان صاحب گزشتہ سالوں کے دوران جنگ جیو پر بھی الزامات لگاتے رہے کہ وہ نواز شریف سے پیسہ کھا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کی مہربانی ہو گی کہ وہ اس سلسلے میں آئی بی سمیت دوسرے تمام حکومتی اداروں کو حکم دیں کہ اُن کے ان الزامات کی روشنی میں اُنہیں ثبوت فراہم کریں اور اگر وہ اپنی بات میں سچے ہوئے ہوں تو پیسہ کھانے والوں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ اُنہیں قانون کے مطابق سزا بھی دی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور تمام الزامات غلط ثابت ہوے تو پھر کیا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ خان صاحب اور اُن کی حکومت خود کرے۔