کراچی(این این آئی) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ گردشی قرضوں کی عفریت نے ملکی معیشت کو جکڑ رکھا ہے، موجودہ حکومت کے 6ہفتوں کے دوران گردشی قرضہ میں 200ارب روپے کا اضافہ ہوا اور سینیٹ کی کمیٹی برائے گردشی قرضہ کے مطابق حالیہ اضافہ کے
بعد گردشی قرضہ 1400ارب روپے کی خطرناک حد کو پہنچ گیاہے جو 11ارب ڈالر کے برابر ہے۔ گردشی قرضہ میں اضافہ سے گیس اور توانائی کے شعبے خاص طور سے متاثر ہورہے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری پربھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لئے فوری اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ترقی یافتہ دنیا کے برعکس پاکستان میں توانائی کی تقسیم اور منتقلی کا فرسودہ نظام رائج ہے جس کی وجہ سے لائن لاسز کا تخمینہ 24فیصدتک پہنچ چکا ہے جبکہ بجلی کی چوری کا اوسط 12فیصد ہے۔ آزاد کشمیر، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے صرف سکھر اور حیدرآباد ریجن کے لائن لاسز کا تخمینہ تقریباً130ارب روپے سالانہ ہے۔ گزشتہ پانچ سالہ حکومت میں گردشی قرضہ میں 132ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہوا۔ اگرچہ گزشتہ حکومت نے اپنے آغاز پر 480ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا بھی کیا تھا اس کے باوجود پانچ سالوں کے دوران 656ارب روپے اضافہ کے بعد موجودہ حکومت کے قیام تک 1200ارب روپے تک پہنچ گیا ۔گردشی قرضوں کی مد میں توانائی کے شعبوں کے 640ارب روپے جبکہ گیس کے 150ارب روپے واجب الاداء ہیں۔ان ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث ان شعبوں کی کارکردگی نہ صرف متاثر ہورہی ہے بلکہ توانائی کی صورتحال مزید پیچیدگیوں کا شکار ہورہی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں سابقہ حکومت کے دور میں9ہزار میگا واٹ اضافہ ہوا ہے،
مگر بجلی کی تقسیم، ترسیل ، چور ی اور بلنگ ریکوری کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئیں۔ انفراسٹرکچر کی دگرگوں صورتحال لائن لاسز کی سب سے بڑی وجہ ہے اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو صورتحال مزید ابتر ہوسکتی ہے۔2013میں وطن عزیز میں بجلی کی پیداوار کا بنیادی مدار درآمدی تیل پرتھا مگر اب پاکستان میں تقریباً35فیصد بجلی تیل29فیصد گیس،29فیصد ہائیڈرو، 9فیصد کوئلہ اور6 فیصدنیوکلئر انرجی سے بنائی جاتی ہے،
اسکے برعکس جدید دنیامیں ہائیڈرو اوردیگر ذرائع سے بجلی کی پیداوار کا رجحان بڑھ رہا ہے جس سے نہ صرف صنعتوں کو سستی بجلی مہیا ہورہی ہے جس کی وجہ سے کاروباری لاگت میں کمی کے باعث صنعتی پیداوار میں اضافہ معاشی ترقی کا باعث بن رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ گردشی قرضوں کی بڑی وجوہات میں لائن لاسز،بجلی کی چوری، حکومت کی جانب سے سبسیڈیز کی ادائیگی میں تاخیرو رکاوٹ، توانائی کی ترسیل کا فرسودہ اور ناکارہ نظام، بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ، سستی بجلی کے منصوبوں میں تعطل اور صوبوں کا توانائی کے شعبوں میں دلچسپی نہ ہونا ہے۔
بجلی کے سالخوردہ انفراسٹرکچر کو ازسرنوجدید خطوط پر استوار کیا جانا ضروری ہے تاکہ بجلی کی ترسیل کا موثر متبادل میسر آسکے اور بجلی کی ترسیل میں ہونے والے خسارہ کو کم کیا جاسکے۔ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ انتہائی ضروری ہے اور مستقبل میں بجلی ضروریات میں ہونے والے اضافہ کے پیش نظر مزید بجلی کی پیداوار ناگزیر ہے، لیکن موجودہ صورتحال میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام اور سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے، حکومت بجلی کی پیداوار کے لئے ہوا، اور پانی جیسے سستے اور ماحول دوست وسائل کے استعمال میں اضافہ کرے۔