اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی مظہر برلاس نے اپنے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم میں سفارش پر کھلاڑیوں کو شامل کیا جاتا ہے اور پاکستان کے کامیاب ترین کپتان مصباح الحق بھی اسی طرح کی ایک سفارش کی بدولت قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے تھے۔ مظہر برلاس لکھتے ہیں کہ سرفراز آسیب کا سایہ بنتا جا رہا ہے گزشتہ تین چار دنوں میں کرکٹ دیکھنے
کا اتفاق ہوا ہے۔سرفراز ایک ڈری ہوئی، سہمی ہوئی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں، ٹیم کا یہ خوف میچ کی آخری گیند تک نہیں جاتا ۔اگر کھیل کو دیکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی ٹیم سفارشیوں سے بھری پڑی ہے، ہو سکتا ہے کہ اس میں کرپشن کا بھی دخل ہو، پچھلے چیئرمین پی سی بی کے انتہائی قریب سمجھے جانے والوں میں راشد لطیف بھی شامل تھے، سمجھداروں کیلئے نام ہی کافی ہے ۔کون کس کا بھانجا ہے ؟کون کس کا رشتے دار ہے ؟قومی ٹیم کی سلیکشن اس سے ہٹ کر ہونی چاہئے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت دو تین دیگر شہروں سے ٹیم سلیکٹ کر لی جاتی ہے، جو کھلاڑی اس وقت قومی ٹیم میں کھیل رہے ہیں ان سے کہیں اچھے اور بہتر کھلاڑی ہمارے قصبوں، چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں موجود ہیں مگر سفارش اور رسائی نہ ہونے کے باعث ان بےچاروں کو چانس بھی نہیں ملتا،آپ کی تسلی کیلئے میں ایک واقعہ لکھ رہا ہوں۔قومی اسمبلی کے رکن امجد علی خان بتاتے ہیں کہ ’’….میںمیانوالی میں اپنے پٹرول پمپ پر بیٹھا تھا میرے والد ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی وفاقی وزیر تھے، میرے پاس مصباح الحق آ گیا مصباح الحق میانوالی کے ایک بی کلاس کلب میں کھیلتا تھا، میں نے مصباح سے حال احوال معلوم کیا تو مصباح بتانے لگا کہ حالات اچھے نہیں ہیں، بیروزگاری ہے، کرکٹ میں بھی آگے جانے کا کوئی چانس نہیں مل رہا، مجھ سے مصباح کی
پریشانی نہ دیکھی گئی اور میں نے اپنے والد کو اسلام آباد فون کر دیا کہ چیئرمین کرکٹ بورڈ ڈاکٹر نسیم اشرف سے کہیں کہ وہ ہمارے میانوالی کے ایک لڑکے کو چانس تو دیں اگر اس میں صلاحیتیں ہوئیں تو وہ قومی ٹیم میں شامل ہو جائے گا اور اگر اس قابل نہ ہوا تو واپس میانوالی آجائے گا، خیر مصباح الحق کو چانس ملا وہ قومی ٹیم میں شامل ہوا پھر کپتان بنا، کھلاڑی بھی کامیاب رہا اور کپتان بھی کامیاب رہا .