اسلا م آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی حامد میر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بہت ساری منسٹریاں خالی ہیں شاید ان کو دوسرے فیز میں پُر کیا جائے گا۔ معروف صحافی نے کہا کہ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مجھے وزارتوں کی تقسیم پر حیرانگی ہے، جہاں تک فواد چوہدری، غلام سرور خان، عامر کیانی، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، پرویز خٹک صاحب میرے خیال سے ٹھیک ہیں،
لیکن مجھے ایک بات پر حیرانگی نہیں بلکہ دھچکا لگا ہے کہ شیریں مزاری اور شفقت محمود میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے جو قابل ترین لوگ ہیں ان میں سے ایک ہیں، تو شیریں مزاری صاحبہ کو آپ نے ہیومن رائٹس دے دیا ہے اور شفقت محمود صاحب کو آپ نے ایجوکیشن کی وزارت دے دی ہے جو کہ پروونشل سبجیکٹ ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے وزیر ہوں گے جو کہ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے دور میں بلیغ الرحمان تھے، مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی کہ شفقت محمود اور شیریں مزاری کو یہ وزارتیں دے دی ہیں، معروف صحافی نے کہا کہ شیریں مزاری ہیومن رائٹس کے لیے کیا کام کر سکتی ہیں ہیومن رائٹس اصل میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، لاء اینڈ آرڈر بھی لیگل سبجیکٹ ہے، اس میں فہمیدہ مرزا صاحب کو آپ نے بین الصوبائی رابطہ کی وزارت دی ہے، صوبوں کے ساتھ اگر آپ نے کوآرڈی نیٹ کرنا ہے تو سب سے زیادہ صوبہ جو آپ کو تنگ کر سکتا ہے وہ سندھ ہے جہاں اپوزیشن کی حکومت ہے سندھ حکومت کی اور فہمیدہ مرزا صاحبہ کی آپس میں لڑائی ہے، اگر آپ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے ہیں اور آپ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو دور رکھنا چاہتے ہیں تو بین الصوبائی رابطہ کی یہ وزارت کسی ایسے بندے کو دینا چاہیے تھی ایسے وزیر کو جو پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت کر سکے، معروف صحافی حامد میر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے، انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فروغ نسیم صاحب ایک اچھے وکیل ہیں لیکن عمران خان شاید یہ بھول گیا ہیکہ فروغ نسیم صاحب پرویز مشرف کے بھی وکیل ہیں، معروف صحافی نے کہا کہ اگر لاء منسٹر پرویز مشرف کا وکیل رہا ہے تو عمران خان نے تو پہلے دن ہی دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ پرویز مشرف کا ٹرائل تو نہیں ہو گا۔