کوئٹہ(آئی این پی) پاکستان کے رقبے کے لحاظ سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبے بلوچستان کے اب تک 16منتخب اور 6نگران وزیراعلیٰ برسراقتدار رہے ہیں جن میں سے بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر جام کمال عالیانی کے دادا جام غلام قادر مرحوم ،نواب ذوالفقار علی مگسی ،میر ظفراللہ جمالی 2،2مرتبہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں ،
بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال عالیانی 17ویں وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے تو وہ اپنے داد جام غلام قادر مرحوم اور اپنے والد جام محمد یوسف مرحوم کے بعد ایک ہی خاندان سے تیسرے وزیراعلیٰ بلوچستان ہونگے اس سے قبل نواب محمدخان باروزئی پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے بلکہ ان کے صاحب زادے نواب غوث بخش باروزئی بھی نگران وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق آزادی کے بعد بلوچستان کے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریاض حسین تھے جو یکم جولائی 1970سے 25دسمبر 1971تک اپنی ذمہ داری سرانجام دیتے رہے ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیاتو نواب غوث بخش رئیسانی بلوچستان کے دوسرے گورنر بنے جو 25دسمبر 1971سے 29ایرپل 1972تک عہدے پر فائز رہے صدراتی فرمان کے تحت 1972کو بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی عام انتخابات کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) اور جمعیت علماء اسلام (مفتی گروپ) کے اتحاد سے بننے والی اتحادی حکومت 9ماہ تک یکم مئی 1972سے13فروری1973تک قائم رہی بلوچستان میں پہلا گورنر راج 13فروری1973سے27مارچ 1973تک رہا
اس وقت شہید نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کے گورنر تھے اس دوران جام غلام قادر 27اپریل 1973سے 31دسمبر1974تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہے جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھابلوچستان میں دوسرا گورنر راج 31دسمبر 1975سے6دسمبر 1976تک قائم رہاجس میں گورنر بلوچستان احمد یار خان تھے ۔10مارچ 1978کے انتخابات میں پی بی 16سبی ون سے منتخب ہونے والے سردار محمد خان باروزئی کو قائد ایوان بنا یا گیا
ان کی حکومت تین ماہ 24دن برقرار رہی جو 7دسمبر1976سے5جولائی 1977تک تھی بلوچستان میں تیسرا گورنر راج5جولائی 1977سے6اپریل 1985تک قائم رہا 1985 کے عام انتخابات کے بعد 12مارچ کو بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی اور جام میر غلام قادر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جو9 2مئی1988 تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ۔بلوچستان کی چوتھی اسمبلی 26نومبر 1988کو وجود میں آئی24جون1988سے24دسمبر1988تک
وزیراعلیٰ میر ظفر اللہ جمالی رہے اکثریت ثابت نہ ہونے پر ان کی حکومت کو ختم کردیا گیا بلوچستان کے عارضی وزیر اعلیٰ بلوچستان میر خدا بخش مری تھے جو بلوچستان ہائی کورٹ کے جج تھے انہو ں نے 24دسمبر 1988سے5فروری1989تک وزیر اعلیٰ بلوچستان کا عہدہ اپنے پاس رکھا 5فروری 1989کو پانچویں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی منتخب ہوئے
جو سات اگست 1990تک قائد ایوان رہے میر ہمایوں خان مری نے 7اگست 1990سے 17نومبر 1990تک پہلے نگران وزیراعلیٰ بلوچستان رہے 1990کے عام انتخابات کے بعد 17 نومبر1990کو میر تاج محمد جمالی وزیراعلیٰ بن گئے وہ17نومبر1990سے 22مئی 1993تک وزیراعلیٰ رہے جس کے بعد 30مئی سے 19اگست 1993تک نواب ذوالفقار علی مگسی وزیراعلیٰ رہے
بلوچستان میں دوسری مرتبہ نگران وزیر اعلیٰ محمد نصیر خان مینگل نے 19جولائی 1993سے20اکتوبر1993تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہے 1993کے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر نواب ذوالفقار علی مگسی وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جو20اکتوبر 1993سے20نومبر1996تک وزیراعلیٰ رہے، بلوچستان کے تیسرے نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان میر ظفر اللہ جمالی بنے جو9نومبر 1996سے22فروری1997تک رہے 22فروری 1997کو
سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور 29جولائی 1998 تک وزیراعلیٰ رہے 31اگست 1998کو میر جان محمد جمالی کو قائد ایوان منتخب کیا گیا جو 12اکتوبر 1999تک وزیراعلیٰ رہے ایک بارے پھر بلوچستان میں گورنر راج 12اکتوبر 1999کو لگا جو 1دسمبر 2002تک قائم رہایکم دسمبر 2002کو جام یوسف وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور 19نومبر 2007تک وزیراعلیٰ رہے
بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ محمد صالح بھوتانی نے 19نومبر 2007سے 8اپریل 2008تک وزیر اعلیٰ رہے 2008کے عام انتخابات میں 9ایرپل 2008کو قائد ایوان نواب محمد اسلم رئیسانی منتخب ہوکر بلوچستان اسمبلی کے 14ویں وزیراعلیٰ بنے تاہم کوئٹہ میں دہشتگردی کے افسوسناک واقعہ کے بعد 14جنوری2013ء سے لیکر7جون 2013ء تک گورنر نافذ کیاگیا بعدازاں نواب محمد اسلم رئیسانی نے ایک مرتبہ پھر بطور وزیراعلیٰ خدمات سرانجام دئیے اور
وہ 14جنوری 2013ء تک یعنی 4سال10ماہ تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی نے 23مارچ2013کو حلف اٹھایا 7جون 2013تک نگران وزیراعلیٰ رہے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کے مشترکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالمالک بلوچ نے 7جون 2013سے 23دسمبر 2015تک رہے بعدازان 24دسمبر 2015کو نواب ثناء اللہ زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے
جو عدم اعتماد کی بنا پر 9جنوری 2018کو رخصت ہوئے جس کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو 16ویں وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے وہ13جنوری 2018ء سے 31مئی 2018ء تک فرائض انجام دیتے رہے بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہنے والے نواب اکبر خان بگٹی فوجی آپریشن میں مارے گئے جبکہ نواب محمد خان باروزئی ، جام غلام قادر ،تاج محمد جمالی اور میر جام یوسف ہمارے درمیاں موجود نہیں ۔حالیہ عام انتخابات کے بعد
بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے بلکہ متحدہ مجلس عمل 9نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبرپر ہے اس کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کو عدد اعتبار سے دیگر جماعتوں پر سبقت حاصل ہے اگر بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر جام کمال عالیانی 17ویں وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب ہوئے تو وہ اپنے دادا جام غلام قادر مرحوم اور والد جام محمد یوسف مرحوم کے بعد ایک ہی خاندان سے تیسرے وزیراعلیٰ ہونگے بلکہ سرداراخترجان مینگل اور میر عبدالقدوس بزنجو منتخب ہوئے تو وہ بھی دوسری دفعہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب تک پہنچنے والوں کی فہرست میں شامل ہونگے اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر جام کمال عالیانی کے دادا جام غلام قادر مرحوم ،نواب ذوالفقار علی مگسی ،میر ظفراللہ جمالی 2،2مرتبہ وزراء اعلیٰ بلوچستان کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں اس سے قبل نواب محمدخان باروزئی پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے بلکہ ان کے صاحب زادے نواب غوث بخش باروزئی بھی نگران وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ہیں ۔