اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) گیلپ سروے کے مطابق 2013ء کے انتخابات کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں کے ووٹ بینک میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک 33 فیصد سے بڑھ کر 38 فیصد ہوگیا ہے جبکہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک 15 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہوا ہے اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی حمایت 2013ء میں بھی 15فیصد تھی اور آج بھی اسی سطح پر برقرار ہے۔
گیلپ سروے نے 2008ء اور 2013 میں جو پیش گوئی کی تھی وہ حیران کن حد تک درست رہی تھی اور اب 2018ء کے انتخابات کے لیے ایسی ہی بڑی پیش گوئی کر دی گئی ہے۔ معروف کالم نویس عرفان حسین نے ایک موقر قومی اخبار میں چھپنے والے اپنے کالم میں گیلپ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف 15فیصد پاکستانی سیاسی رہنماؤں کی شخصیات کے سحر میں مبتلا ہو کر ووٹ دیتے ہیں جبکہ 85فیصد سیاسی جماعتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ذاتی شہرت کے حوالے میاں نواز شریف اپنے بڑے حریف عمران خان 45کے مقابلے میں 50فیصد سے آگے ہیں۔واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں قدرے زیادہ اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود بھی تحریک انصاف مسلم لیگ(ن) کے پیچھے ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی۔ گیلپ کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں بھی واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی۔ پنجاب میں تحریک انصاف مسلم لیگ ن سے 20 فیصد پیچھے ہوگی۔ پیپلز پارٹی سندھ اور تحریک انصاف کے پی کے میں اکثریتی جماعت بن کر ابھریں گی۔ بلوچستان میں مینڈیٹ منقسم ہوگا اس وقت میاں نوازشریف اور شہبازشریف ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں دونوں کو 50 فیصد عوام پسند کرتے ہیں جبکہ عمران خان کو 45 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حمایت پی ٹی آئی سے 20فیصد زیادہ ہے، جسے اگر اسمبلی کی نشستوں پر تعبیر کیا جائے تو مسلم لیگ ن پنجاب سے واضح اکثریت میں جیتے گی اور سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی۔