اتوار‬‮ ، 21 دسمبر‬‮ 2025 

پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کتنے فیصد زائد ہے؟رپورٹ سامنے آگئی،تشویشناک صورتحال

datetime 9  مئی‬‮  2018 |

اسلام آباد(سی پی پی) پاکستان کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی تعداد اصل گنجائش سے 57 فیصد زیادہ ہے اور اس وقت ملک میں کل قیدیوں کی تعداد کا دوتہائی حصہ ٹرائل کا سامنا کر رہا ہے یا پھر ٹرائل کا انتظار کر رہا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تعداد 27 فیصد ہے۔یہ انکشاف نیشنل کانٹر ٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا)انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) اور کرسر ڈیولپمنٹ اینڈ ایجوکیشن (کوڈ)پاکستان کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی ان کے لیے ناپسندیدہ حالات زندگی کی صورت میں سامنے آرہی اور قیدی اور جیل کے عملے میں مختلف امراض اور دیگر مسائل پھیل رہے ہیں۔رپورٹ میں کچھ سفارشات پیش کی گئی ہیں، جنہیں فوری، قلیل مدتی اور طویل مدتی انداز میں تقسیم کیا گیا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کے 8سب سے زیادہ بھرے ہوئے جیلوں میں صحت کے بڑے بحران سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کچھ سفارشات پیش کی گئی، جن میں جیلوں میں قیدیوں کے کوارٹر کو ہوا دار بنانا اور روزانہ ہر قیدی کے لیے 10 سے 15 لیٹر پانی کا حصول لازمی قرار دیا گیا۔خیال رہے کہ ان 8 سب سے زیادہ بھرے ہوئے جیلوں میں اصل گنجائش کے مقابلے میں 300 سے 500 فیصد زائد قیدیوں کی تعداد موجود ہے۔رپورٹ میں یہ سفارشات بھی دی گئیں کہ پینے کا پانی مناسب کنٹینرز میں دستیاب ہو تاکہ ہر وقت اس تک رسائی ممکن ہو، اس کے علاوہ مناسب غذا ہو جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کی جائے، بیت الخلا کی کافی تعداد ہو جبکہ دن کے اوقات میں کھلی فضا تک رسائی ممکن ہو۔اس کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو تمام طبی سہولیات کی فراہمی سمیت جیلوں میں ایمرجنسی انخلا کی موجودگی اور قیدیوں کی تعداد کی نگرانی بھی کی جائے۔

رپورٹ میں طویل مدتی سفارشات کے بارے میں بتایا گیا کہ فلاح بہبود کی خدمات، گھر کے لیے مدد، ملازمت اور دیگر چیزوں کے ذریعے سماجی و معاشی پسماندگی کم کرنے میں مدد کی جائے، اس کے علاوہ بچوں کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری کے لیے ان کی جرم کی عمر کا جائزہ لیا جائے۔قلیل مدتی سفارشات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے جس میں خواتین اور بچوں کو سزا سے قبل قید سے دور رکھا جائے۔اس حوالے سے نیکٹا کے کوآرڈینیٹر احسان غنی خان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ لوگ کئی دہائیوں سے سزا سے قبل یا خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جیلوں میں قید ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کیسا محسوس ہوگا کہ اگر ہم میں سے کسی کے ساتھ ایسا ہو؟ کیونکہ اس وقت 66 فیصد ایسے قیدی بغیر سزا کے جیلوں میں موجود ہیں جبکہ عالمی سطح کے مقابلے میں یہ شرح 27 فیصد ہے، تاہم نیکٹا کے پاس اس حوالے تحقیقات کرنے کی تجویز ہے تاکہ لوگ غیر ضروری طور پر حراست میں نہ رہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



تاحیات


قیدی کی حالت خراب تھی‘ کپڑے گندے‘ بدبودار اور…

جو نہیں آتا اس کی قدر

’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…