منگل‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کتنے فیصد زائد ہے؟رپورٹ سامنے آگئی،تشویشناک صورتحال

datetime 9  مئی‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(سی پی پی) پاکستان کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی تعداد اصل گنجائش سے 57 فیصد زیادہ ہے اور اس وقت ملک میں کل قیدیوں کی تعداد کا دوتہائی حصہ ٹرائل کا سامنا کر رہا ہے یا پھر ٹرائل کا انتظار کر رہا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تعداد 27 فیصد ہے۔یہ انکشاف نیشنل کانٹر ٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا)انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) اور کرسر ڈیولپمنٹ اینڈ ایجوکیشن (کوڈ)پاکستان کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی ان کے لیے ناپسندیدہ حالات زندگی کی صورت میں سامنے آرہی اور قیدی اور جیل کے عملے میں مختلف امراض اور دیگر مسائل پھیل رہے ہیں۔رپورٹ میں کچھ سفارشات پیش کی گئی ہیں، جنہیں فوری، قلیل مدتی اور طویل مدتی انداز میں تقسیم کیا گیا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کے 8سب سے زیادہ بھرے ہوئے جیلوں میں صحت کے بڑے بحران سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کچھ سفارشات پیش کی گئی، جن میں جیلوں میں قیدیوں کے کوارٹر کو ہوا دار بنانا اور روزانہ ہر قیدی کے لیے 10 سے 15 لیٹر پانی کا حصول لازمی قرار دیا گیا۔خیال رہے کہ ان 8 سب سے زیادہ بھرے ہوئے جیلوں میں اصل گنجائش کے مقابلے میں 300 سے 500 فیصد زائد قیدیوں کی تعداد موجود ہے۔رپورٹ میں یہ سفارشات بھی دی گئیں کہ پینے کا پانی مناسب کنٹینرز میں دستیاب ہو تاکہ ہر وقت اس تک رسائی ممکن ہو، اس کے علاوہ مناسب غذا ہو جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کی جائے، بیت الخلا کی کافی تعداد ہو جبکہ دن کے اوقات میں کھلی فضا تک رسائی ممکن ہو۔اس کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو تمام طبی سہولیات کی فراہمی سمیت جیلوں میں ایمرجنسی انخلا کی موجودگی اور قیدیوں کی تعداد کی نگرانی بھی کی جائے۔

رپورٹ میں طویل مدتی سفارشات کے بارے میں بتایا گیا کہ فلاح بہبود کی خدمات، گھر کے لیے مدد، ملازمت اور دیگر چیزوں کے ذریعے سماجی و معاشی پسماندگی کم کرنے میں مدد کی جائے، اس کے علاوہ بچوں کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری کے لیے ان کی جرم کی عمر کا جائزہ لیا جائے۔قلیل مدتی سفارشات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے جس میں خواتین اور بچوں کو سزا سے قبل قید سے دور رکھا جائے۔اس حوالے سے نیکٹا کے کوآرڈینیٹر احسان غنی خان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ لوگ کئی دہائیوں سے سزا سے قبل یا خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جیلوں میں قید ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کیسا محسوس ہوگا کہ اگر ہم میں سے کسی کے ساتھ ایسا ہو؟ کیونکہ اس وقت 66 فیصد ایسے قیدی بغیر سزا کے جیلوں میں موجود ہیں جبکہ عالمی سطح کے مقابلے میں یہ شرح 27 فیصد ہے، تاہم نیکٹا کے پاس اس حوالے تحقیقات کرنے کی تجویز ہے تاکہ لوگ غیر ضروری طور پر حراست میں نہ رہیں۔

موضوعات:



کالم



دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام


شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…