اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ آئین کے جج ، جرنیل اور سیاستدان محافظ ہیں ٗ جو آئین کی عزت نہیں کرتا ہم اس کی عزت نہیں کرتے ٗ آئندہ انتخابات جیت کر تاحیات کی نااہلی یک جنبش قلم سے ختم کر دیں گے ٗکسی نے ہمارے آئین سے چھیڑ خانی کی تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ منگل کو مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ سیمینار سے خطاب کر تے ہوئے محمود خان اچکزائی نے کہا ہے کہ آئین کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہے ٗ
یہ عوام کی ایک متفقہ رائے ہے ٗآئین کے جج ، جرنیل اور سیاستدان تینوں محافظ ہیں ٗ تینوں آئین کی پاسداری اور حفاظت کا حلف اٹھاتے ہیں جس دن نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو اس دن پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ آج سے جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں میں جنگ شروع ہوگئی ہے ٗہم سیاستدانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس جنگ میں کس صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئین میں ہر ادارے کا فریم ورک موجود ہے ٗجج سیاستدان اور جرنیل آئین کے تحت اپنے فریم ورک سے باہر نکلنے کی کوشش کریں تو یہ آئین کے سپرٹ کے خلاف ہے ٗاور ہماری ذمہ داری ہے کہ اس گناہ کو روکیں ۔انہوں نے کہاکہ اگر سیاسی آدمی ڈکٹیٹر بنے گا تو ہم اس کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا، محمود خان اچکزائی نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ترکی کی طرح سڑکوں پر آجائیں ٗ پاکستان رضاکارانہ فیڈریشن ہے اس فیڈریشن کو قائم رکھنا ہمارا ملی فریضہ ہے ٗبدقسمتی سے ہم وہاں رہے رہے ہیں جہاں ریاست اپنے بچوں کو ڈراتی اور بلیک میل کرتی ہے ٗجو سیاستدان بکتاہے اس کو چھوڑیں وہ بکاؤ مال ہے اور ایسے سیاستدانوں کو پوری زندگی اپنی جماعتوں میں دوبارہ شامل نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ 1970میں پاکستان آج سے زیادہ مضبوط تھا مگر الیکشن میں مداخلت ہوئی اور ہمارا ملک ٹوٹا ۔ اب اگر کسی نے ووٹ میں مداخلت کی تو پاکستان کا کتنا بڑا نقصان ہوگا یہ نہیں پتہ ۔ اس نقصان کی تمام تر ذمہ داری مداخلت کرنے والے پر ہوگی،
ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم کسی کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ ہم ہر اس جرنیل جج اور سیاست دان کی عزت کرتے ہیں جو آئین اور قانون کی عزت کرتا ہے اور ہم انہیں سلوٹ کرتے ہیں جو آئین کی عزت نہیں کرتا ہم اس کی عزت نہیں کرتے ۔ محمود خان اچکزائی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے کہا کہ چار قراردادیں منظور کی جائیں پہلی قرارداد مارشل لاء کے ادوار میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز کیلئے منظور کی جائے جنہوں نے اپنی تنخواہیں اور نوکری کی قربانی دی اور گھر چلے گئے ۔
قرارداد میں ایسے ججز کو سراہا جائے دوسری قرارداد پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کے خلاف منظور کی جائے اور ان ججز کو نوکری سے نکالا جائے جبکہ تیسری قرارداد جمہوریت کیلئے جانیں دینے والے سیاسی ورکروں کیلئے منظور کی جائے اگر یہ تمام قراردادیں پارلیمنٹ میں منظور کرلی جاتی توآج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ انہوں نے کہا کہ 2018کا الیکشن بھرپور انداز میں لڑیں گے،پار لیمانی قوتیں جیتیں گی اور پارلیمنٹ تاحیات کی نااہلی یک جنبش قلم سے ختم کر دیں گے یہ ہمارا حق ہے،
عوام ووٹ ڈالیں گے اور عوام کی طاقت سے ہم تمام غلط فیصلے الٹے کر دیں گے،لیکن اگر کسی نے ہمارے آئین سے چھیڑ خانی کی تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ بڑا اہم موقع ہے نواز شریف کی بحثیت وزیراعظم تاریخی تقریر کی 25ویں سالگرہ بھی ہے اس وقت بہت بڑی ٹسل چل رہی تھی اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کی، 14اپریل 1993کو غلام اسحاق خان کے ساتھ نواز شریف کی آخری میٹنگ تھی کوئی کہہ رہا تھا کہ استعفیٰ دیں اور کوئی ڈیل کرلیں میں نے کہا کہ آپ اپنا کیس بیان کریں عوام آپکا ساتھ دیگی،
اس وقت یہ عوامی لیڈر کی تقریر تھی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اقامے کی بنیاد پر وزیراعظم کو ہٹایا پھر مسلم لیگ کی صدارت سے نکالا پھر جتنے فیصلے انہوں نے کئے انہوں نے کہا کاالعدم ہیں میں نے کہا کہ شکر ہے نیوکلیئر ٹیسٹ اور سی پیک کو کاالعدم نہیں قراردیا ۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ قوم کا بیانیہ بن گیا ہیم۔شاہد حسین سید نے کہا کہ 1993میں بھی ووٹ کی پامالی ہوئی ٗ اکثریت کو انتقال اقتدار نہیں دیا گیا، 1975میں سپریم کورٹ نے نیشنل عوام پارٹی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔
بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں قومی سلامتی کے حوالے سے سب سے مشکل فیصلہ نیوکلیئر دھماکے کا کیا گیا۔ جسے بھٹو نے شروع کیا اور نواز شریف نے مکمل کیا۔ اس وقت تین سروس چیفس تھے ایک نے مخالفت کی ایک نے حمایت کی اور ایک نے کہا کہ جوآپ فیصلہ کریں۔ بل کلنٹن نے پانچ ارب ڈالر بھی آفر کیے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ سی پیک 2013 میں کیا گیا جو اقتصادی سلامتی کا فیصلہ تھا، سی پیک گیم چینجر ہے ،تیسرا ضرب عضب کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ کی تائید سے ہوا۔ کراچی کا ماحول اب تبدیل ہوگیا ماضی میں بھی پولیٹکل انجینئرنگ کی کوشش کی گئی ۔