اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عمران خان بھی 62 ون ایف کی زد میں، تاحیات نا اہلی کی تلوار سر پر لٹک گئی۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی دنیا نیوز کے پروگرام ’ٹو نائٹ وِد معید پیرزادہ ‘میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کو ضیا الحق نے آئین کا حصہ بنایا اور اس کو مذہبی ٹچ دیا گیا جس کا مقصد ممبران اسمبلی
کو تابع رکھنا تھا اور باغیوں کو سبق سکھانا مقصود تھا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ 62ون ایف کے تحت نا اہلی کی مدت کا تعین سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کرتے ہوئے اس آرٹیکل کے تحت نا اہلی کو تاحیات نا اہلی قرار دیا ہے ۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا ہے۔ حامد میر نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ جب آئینی ترمیم کے دوران اس آرٹیکل کو آئین میں شامل رکھا گیا اور کیونکہ میں اس آرٹیکل کا سب سے بڑا ناقد تھا تو اس وقت رضا ربانی نے مجھے کہا کہ نواز شریف اس کو نہیں نکالنا چاہتے ، آپ کیونکہ میڈیا پر بھی اس کے خلاف بات کرتے ہیں لہٰذا آپ ان سے بات کریں جس پر میں نے اس حوالے سے نواز شریف سے بات کی مگر وہ ہیں مانے اور کہا کہ کیونکہ یہ آئین کا آرٹیکل مذہبی ٹچ لئے ہوئے ہے تو مذہبی جماعتیں شور مچائیں گی اور نیا پنڈورا باکس کھل جائیگا کیونکہ وہ آئین سے اسلامی شقوں کو نکالنے کے حوالے سے مرنے مارنے کیلئے تیار ہیں۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ اب جب کہ سپریم کورٹ نے آئین کے اس آرٹیکل کی تشریح کر دی ہے اور 62ون ایف کے تحت نا اہل ہونے والا تاحیات نا اہل تصور ہو گا تو میں یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ اس آرٹیکل کے تحت صرف نواز شریف اور جہانگیر ترین ہی نا اہل نہیں ہوئے بلکہ آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت شیخ رشید کا بھی کیس سپریم کورٹ میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ کل کوئی سیاستدان اٹھ کر
کیلفورنیا کورٹ کا فیصلہ لے کر آئے اور سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کرے کہ کیونکہ عمران خان صادق اور امین نہیں رہے انہوں نے جھوٹ بولا ہے لہٰذا انہیں آرٹیکل 62ون ایف کے تحت تاحیات نا اہل کیا جائے ۔خیال رہے کہ حامد میر کا اشارہ سیتا وائٹ کیس کی جانب تھا۔ حامد میر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اس آئین کے
آرٹیکل 62ون ایف کے تحت کوئی صادق اور امین نہیں میں یہاں یہ بات ضرور کہوں گا کہ میں خود کوصادق اور امین نہیں سمجھتا ۔ مقدس ہستیاں جو کہ اللہ کے نبی اور پیغمبر گزرے وہ تو اس معیار پر پورا اتر سکتے ہیں مگر ایک عام شخص نہیں اسی لئے میں خود کو اس معیار پر پورا اترتے ہوئے نہیں دیکھتا۔ حامد میر نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ
جب انہیں اپوزیشن یہ معاملہ پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے کا کہتی رہی تو وہ نہ مانے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جب میاں نواز شریف 1997ء میں وزیراعظم بنے تو میں نے اس وقت نوازشریف کی بیرون ملک جائیدادوں کے بارے میں ایک تفصیلی آرٹیکل اور کالم بھی لکھا تھا جس پر میاں نواز شریف مجھ سے ناراض بھی ہو گئے تھے لیکن ا ب شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ میں ان کا پرانا کیس جانتاہوں
اس لیے مجھے وضاحت دے دیں اور انہوں نے انٹرویوز کروائے پھر میاں نوازشریف نے قوم سے بھی خطاب کیا اور قومی اسمبلی میں تقریر بھی کی مگر نواز شریف اپنا کیس ٹھیک سے پیش نہیں کر سکے، سب سے بڑی غلطی انہوں نے یہ کی کہ جب پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے معاملہ حل کرنے کا کہا تو انہوں نے ایسا نہ کیا جس پر معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ سینئر صحافی نے
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جس نے بھی میاں نواز شریف کو یہ کہا کہ آپ میڈیا کے ذریعے اپنا کیس کلیئر کریں، انہوں نے بہت بڑی غلطی کی۔