مٹھی(سی پی پی) غذائی قلت اور وائرل انفیکشن کے باعث گزشتہ 24 گھنٹوں میں تھر کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مزید 10 بچے مٹھی کے سول ہسپتال میں دم توڑ گئے جبکہ رواں سال بچوں کی اموات کی تعداد 190 تک پہنچ گئی۔نجی ٹی وی کے مطابق مٹھی کے سول ہسپتال میں بہتر علاج معالجے کے لیے گاں سے آنے والے مزید 10 بچے جاں بحق ہوئے، جس کے بعد رواں سال بچوں کی اموات کی تعداد 190 تک پہنچ گئی۔
انفیکشن اور غذائی قلت کے باعث جاں بحق ہونے والوں میں ایک سال کا نشاد، 2 سالہ خالدہ، 3 ماہ کا انتظار علی، 4 ماہ کی ماروی، 5 ماہ کی عابدہ، 8 برس کی ماروی، 6 ماہ کی خاتون نامی بچی، 8 ماہ کی عائشہ، 3 ماہ کی دھانا اور 7 ماہ کی شانتی شامل ہیں۔دوسری جانب جاں بحق اور بیمار بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کے علاقوں میں صحت سمیت بنیادی سہولیات موجود نہیں ہے جبکہ ادویات کا بھی فقدان ہے، جس کے باعث انہیں شدید گرمی میں بچوں کے علاج کے لیے کئی کلو میٹر سفر کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے بچوں کی طبیعت مزید خراب ہوجاتی ہے اور وہ دوران علاج جاں بحق ہوجاتے ہیں۔اس بارے میں ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈویلپمنٹ سوسائٹی (ہینڈز)کے ڈاکٹر شیخ تنویر احمد سمیت صحت اور غذائیت کے ماہرین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تھر میں اس طرح کی اموات کا نوٹس لیں اور وہاں صحت کی سہولیات پہنچانے میں کردار ادا کریں۔تھر میں غذائی قلت کے باعث متعدد اموات اور اس ہنگامی صورتحال پر جب محکمہ صحت کے مقامی حکام سے رابطہ کیا گیا تو کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی تھر میں متعدد بچے صحت کی ناقص صورتحال اور غذائی قلت کے باعث جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے تھر کے 2 لاکھ
87 ہزار غریب خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کی منظوری دی گئی تھی اور چیف سیکریٹری کو گندم کی تقسیم کا عمل فوری طور پر بحال کرنے اور اپریل کے آخر تک اسے مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔تاہم ان سب احکامات کے باوجود تھر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ ماہ بھی خسرہ کی وبا پھوٹنے اور غذائی قلت کے نتیجے میں مزید 5 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔اس واقعے پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا اور سیکریٹری صحت کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا جبکہ تھر میں بچوں کی اموات کے معاملے پر غیر جانبدار ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل کمیٹی بنانے کا بھی کہا تھا۔