اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینئر صحافی و کالم نویس نذیر ناجی نے اپنے کالم میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے حوالے سے لکھاکہ آج عدالتوں میں بڑے زبردست کیس آئے۔ ایک تو ہمارے مشہور و معروف اینکر صاحب تھے‘ جو حسب عادت ایک نیا پھڈا ڈال بیٹھے۔ وہ یہ ہے کہ انہوں نے قصور کی ایک معصوم بچی زینب کے ساتھ زیادتی کے کیس پر‘ اپنے سٹوڈیو میں بیٹھے بیٹھے دیکھے بغیر‘ ٹانگ اڑا دی۔ جہاں جا کر وہ اڑی‘ وہ منصف اعلیٰ‘ میاں ثاقب نثار صاحب کی عدالت تھی۔
دوستوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ غلط بیان جاری کر بیٹھے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے کسی کی بھی نہیں مانی۔ وہ پاکستان کے منصف اعلیٰ کے ساتھ‘ ضد لگا بیٹھے کہ ان کا دعویٰ جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ منصف اعلیٰ میاں ثاقب نثار نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ جس طرح بعض لوگ اپنے دفترمیں بیٹھے‘ کسی قابل احترام شخصیت کو بلاوجہ چیلنج کردیں کہ وہ جو دعویٰ کر رہے ہیں‘ اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا‘ اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے کیا۔ دعویٰ یہ تھا کہ قصور شہر میں معصوم زینب کے قاتل کے‘ دنیا بھر میں ان گنت بینک اکاؤنٹس ہیں۔ ان میں کروڑوں کی غیر ملکی کرنسیاں پڑی ہیں۔ ظاہر ہے ڈاکٹر صاحب کے اس دعوے پر‘ ہر معقول آدمی یہی کہتا کہ ایک خستہ حال ویہڑھے میں چارپائی پر بیٹھا مجرم‘ اندھا دھند زرمبادلہ کیسے کما سکتا ہے؟ وہ بینکوں کی تعداد بھی بتا رہے تھے جن میں مبینہ اکاؤنٹس تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو بڑی محبت اور نیک دلی سے سمجھایا گیا کہ اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائیں۔ ورنہ جس طرح ڈاکٹر صاحب نے بے فکری سے‘ منصف اعلیٰ کو امتحان میں ڈال دیا‘ اس میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں؟ وہ باز نہ آئے۔ اڑتی سی اک خبر ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے نادرخیال سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔وہ یقیناًاپنے خیال میں‘ دنیا بھر کے بیشتر بینکوں سے خاموشی کے ساتھ آٹھ دس بڑے بڑے بینک اکاؤنٹس سے‘ کسی نہ کسی طرح اربوں‘ کروڑوں کی رقوم نکلوا کر‘ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار بن جائیں گے۔
کامیابی حاصل کرنے کے بعد‘ باقی ماندہ امیدواروں سے ڈیل کریں گے اور پوری ٹیم ساتھ لے کر قومی اسمبلی کا رخ کریں گے۔ اپنے دس اراکین کو ”بول کیا مانگتا ہے؟‘‘ کی طرز پر‘ اچھی سی ایک وزارت لے کر‘ وزرا کے لئے مخصوص بہترین رہائش گاہ حاصل کر لیں گے۔ بطور وزیر‘ ا پنے عملے کو جمع کر کے ایک مختصر سی وزارتی میٹنگ کریں گے۔ اپنے سٹاف کو رازداری سے بتائیں گے کہ دنیا کے ستر سے زیادہ بینک اکاؤنٹس میں ان کی بھاری رقوم محفوظ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ اتنی بے انتہا دولت آجانے کے بعد‘ مجھے قومی خزانے سے کچھ لینے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ میں تو دونوں ہا تھو ں سے دولت خرچ کرنے آیا ہوں۔ اس میں سے آپ لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ دیتا رہوں گا، لیکن چند ہی روز میں‘ سب کچھ دیکھنے کے بعد‘ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دولت بٹورنے کے لئے ایک وزارت ہی کافی ہے۔