آسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹ انتخابات میں واحد اکثریتی جماعت بننے کے باوجود حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے لیے اپنا چیئرمین سینیٹ لانا چیلنج بن گیا ہے اور اس اہم عہدے کے حصول کے لیے ایک بار ہارس ٹریڈنگ کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ایم کیو ایم،جے یو آئی ف اور آزاد اراکین اہمیت حاصل کر گئے ہیں دوسری طرف مفاہمت کے بادشاہ سابق صدر آصف زرداری نے ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی سے لانے کے لیے رابطے شروع کر دئیے ہیں
جبکہ نواز شریف نے چیرمین اور ڈپٹی چیرمین سینیٹ کے عہدوں کے لیے زرداری کو مشاورت سے فیصلے کرنیکا پیغام بھی بھجوایا ہے مگر زرداری کا کہنا ہے کہ بات چیت اس وقت ہوگی جب پیپلز پارٹی اپنا امیدوار میدان میں لائے گی پارلیمانی ذرائع کے مطابق سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ 33سینیٹرزکے ساتھ سرفہرست ہے مگر اسے چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے 53 اراکین کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اسے اپنے اتحادیوں اور آزاد اراکین کے ووٹوں کی ضرورت ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے مشاورتی عمل شروع کردیا گیا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں اہم عہدوں کیلئے مسلم لیگ ن کی پیپلزپارٹی کواتحاد کی پیش کش کی گئی ہے سینیٹ میں پیپلزپارٹی 20 سینیٹرزکے ساتھ دوسرے نمبرپرہے ، مسلم لیگ ن کیلئے چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کے ناموں کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے مراحلے میں داخل ہو گئی ہے جبکہ ایوان بالا کی ان دواہم عہدوں کیلئے پیپلزپارٹی اپنے امیدوارمیدان میں اتارنے کی خبریں بھی گرم ہیں ، مسلم لیگ ن ،پی کیمیپ ، نیشنل پارٹی ، جے یو آئی ف ، ایم کیوایم پی ، مسلم لیگ فنکشنل اورفاٹا اراکین پرتکیہ کیے ہوئے ہیں ، آزاد اراکین کا جھکاؤ بھی حکمراں جماعت کی جانب ہی دیکھا جاتا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں عہدوں کیلئے مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کی قیادت کے رابطے بھی ہوئے جس میں نوازشریف نے آصف زرداری کواتحاد کی پیشکش کی ہے جس پرجواب میں سابق صدرنے اپنا امیدوارلانے کے بعد مشاورت کا جوابی پیغام دیا ،
نومنتخب آزاد اراکین سینیٹ کا پلڑا 15ممبران کے ساتھ بھاری ہے جوچیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات اہم کردارادا کرسکتے ہیں ، نومنتخب سینیٹر کی حلف برداری کیلئے 12مارچ کوسینیٹ کا اجلاس پریزائڈنگ افسر یعقوب ناصرکی زیرصدارت ہوگا اور اسی روز چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگا۔ذر ائع نے مزید بتایا کہ کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے سینٹ انتخابات کے بعد چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں بھء ہارس ٹریڈنگ کا خطرہ ہے اور چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں 15آزاد ارکان فیصلہ کن کردار ادا کریں گے ،
اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم اور حکومتی اتحادی جے یو آئی ف بھی سودے بازی کی پوزیشن میں آگئی ہیں۔پی پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن سے 13نشستیں کم ہونے کے باوجود چیئرمین کا منصب ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتی ہے ،اور اگر پرانے اتحاد یوں جے یو آئی اور ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا تو ن لیگ کیلیے چئیرمین منتخب کروانا مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے مسلم لیگ ن کو اتحادی جماعتوں اور فاٹا ارکان کی حمایت کو ہر صورت برقرار رکھنا ہوگا،مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس 48 نشستیں ہیں۔ جس میں سے مسلم لیگ ن کے پاس 33,
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی 5 , نیشنل پارٹی 5 ,جے یو آئی ف 4، مسلم لیگ فنکشنل کے پاس ایک نشست ہے جبکہ چیئرمین کا انتخاب جیتنے کے لیے 53 ووٹ درکار ہیں زرایع نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے لیے مولانا فضل الرحمان کو ساتھ رکھنا بھی امتحان ہوگا،جبکہ مسلم لیگ ن کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے ایم کیوایم اور آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنا پڑ ے گی، دوسری طرف پیپلزپارٹی کو چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں کامیابی کے لیے آزاد ارکان کے ساتھ تحریک انصاف اور چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑے گی۔اگر تحریک انصاف نے چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں سولوفلائیٹ کا فیصلہ کیا تو مسلم لیگ ن کو فائدہ ہوگا، تحریک انصاف۔مسلم لیگ ن او ر پیپلزپارٹی نے پہلے ہی آزاد ارکان سے انفرادی رابطے شروع کر دیے ہیں ۔