اسلام آباد(آن لائن ) ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فور س کے اجلاس میں یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ جون 2018ء میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرلیا جائے تاہم بلیک لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کیے جانے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ بلیک لسٹ سے بچنے کیلئے پاکستان کو تین ماہ کا وقت دیا گیا ہے، اس دوران اگر پاکستان نے اقدامات نہ اٹھائے تو پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرلیا جائے گا۔
گزشتہ روز دفترخارجہ میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان ملکر افغانستان میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کام کررہے ہیں۔افغانستان میں امن طالبا ن کے ساتھ مزاکرات ہی سے ممکن ہے اور پاکستان طالبا ن کے ساتھ مزاکرات کا حامی ہے ۔عسکری کاروائیوں سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی وجہ سے پاکستان کا نام جون میں (گرے لسٹ) میں شامل کرلیا جائے گا، لیکن بلیک لسٹ میں آنے کا ابھی کوئی خدشہ نہیں ہے۔ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر کوئی بات نہیں کر سکتے ۔ ایف اے ٹی ایف کے تمام معاملات وزارت خزانہ انجام دے رہی ہے ۔ا ن کا کہنا تھا کہ پاکستان گرے لسٹ میں آگیا ہے لیکن بلیک میں آنے کا ابھی کوئی خدشہ نہیں، بلیک لسٹ میں صرف وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ، جبکہ پاکستان کو تادیبی اقدامات کیلئے تین ماہ کا وقت دیا گیا ہے ۔واضح رہے کہ پیرس میں 23 فروری کو اختتام پذیر ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اجلاس میں امریکا اور برطانیہ کی اس تجویز پر فیصلہ کیا جانا تھا کہ پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام میں تعاون نہ کرنے والے ملکوں (گرے لسٹ) میں شامل کیا جائے یا نہیں۔تاہم اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں پاکستان کا نام موجود نہیں تھا۔
تین ماہ کے دوران اگر پاکستان نے یہ اقدامات نہ اٹھائے تو اس کے لیے مشکلات ہوسکتی ہیں۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خیلج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔ اس تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔ پاکستان برائے راست اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔
عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔واضع رہے کہ اس سے قبل سال 2012 ء سے 2015 ء تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔ ترجمان نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج معصوم کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہی ہے۔
بھارتی جارحیت پر ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو دفترخارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا ہے ۔ انڈین موشن پکچر ایسوسی ایشن کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر پابند ی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستانی فنکاروں پر پابندی بھارتی بیمار ذہنیت کی عکاس ہے، یہ بھارتی ڈیموکریسی نہیں شیمو کریسی ہے۔بین الاقوامی برادری کو مسئلہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، بھارت حالیہ سال کے دوران 400سے زائد مرتبہ فائربندی کی خلاف ورزی کرچکا ہے ۔
بھارتی چیف کی جانب سے دھمکی کے بارے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افواج کسی بھی طرح کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حوالے انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق عمل کرینگے۔ اس معاملے میں دفترخارجہ ہرممکنہ مدد کرے گا۔اٹلی میں تاریخی عبادت گاہ پر سرخ رنگ روشنی کرکے حتجاج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پور ی دنیا میں مسیحیوں پر ہونے والے مظالم پر احتجاج کیا گیا تھا ، صرف پاکستان کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا ، آسیہ بی بی کی بیٹی اور خاوند اکثر روم جاتے رہتے ہیں اور وہ روم میں اس احتجاج میں بھی شامل تھے۔