کراچی (این این آئی) اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان بات چیت کرنے کے ضمن میں کوئی پابندی عائید نہیں ہے لیکن ان کے درمیان آزادانہ میل وجول کو بھی درست عمل قرار نہیں دیا گیاہے، امریکہ میں رہنے والے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ انسان جو بھی کام کرے اس کا دل صاف ہونا چاہیے،مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلق کا کوئی چینل ہونا ضروری ہے،اگر کسی لڑکے اور لڑکی کے درمیان کوئی جذباتی لگاو موجود ہو تو اس کا کوئی باعزت حل نکالنا چاہیے۔ان خیالات کا اظہا امریکہ میں
اسلامک سینٹر آف ورسسٹر،میساچیوسٹ کے ریذیڈینٹ اسکالر، ڈاکٹر امام آصف ھیرانی نے گزشتہ شام محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی میں ا سلام میں مرد و عورت کے درمیان تعلقات کی اہمیت کے موضوع پر ہونے والے ایک لیکچر کے موقع پر کیا۔لیکچر کا ہتمام اسٹوڈینٹس ویلفئر سو سائیٹی کے نگراں ریحان مزمل بٹ نے کیا تھا ، اس موقع پر سینئر اساتذہ ڈاکٹر ایس ایم نعمان شاہ،ڈاکٹر طاہر الاسلام، حسن جاوید اور سلمان حمید و دیگر بھی موجود تھے۔امام آصٖف ھیرانی نے اپنے لیکچر میں کہا کہ آج کے دور میں ایک لڑکی علم حاصل کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہے تو سب سے پہل اسے لیکچر دینے والا استاد بھی ایک مرد ہی ہوتا ہے،شاپنگ کے لئے بازارجاتی ہے تو دکاندار بھی مرد ہی ہوتا ہے اس لئے مرد اور عورت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف کام کی بات کریں ،فضول گفتگو سے گریز کریں اور بات چیت کے دوران انکی نظریں نیچی ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آج کل سوشل میڈیا بھی بہت مقبول ہو رہا ہے جس کے ذریعے لڑکے اور لڑکیاں رابطے کررہے ہیں لہذا اس ضمن میں ان کو اسلامی احکامات کا بھی خیال کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ایک استاد کے ہمیں نوجوانوں کو عورت کی عزت کرنا سکھانا چاہیے ساتھ ہی ہمیں اس بات کا خیال کرنا بھی ضروری ہے کہ آج کے دور میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایکدوسرے کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو انکی سائیکلوجی ہے
اس لئے وہ نئی نسل کو مشورہ دینگے کہ وہ جذباتی لگاو سے ہرممکن اجتناب کریں یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ڈاکٹر آصف ہیرانی نے طلبہ پر زور دیا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو بات کرتے ہوئے ایکدوسرے کے جسم کو چھونے سے بچنا چاہیے، ہاتھ ملانے(مصافحہ) سے گریز کریں، ایکدوسرے سے بات کرتے ہوئے ذرا سا فاصلہ رکھیں،برے خیلات کو دل میں جگہ نہ دیں،اکیلے نہ ملیں اور گروپ کی شکل میں بات کریں تو یہ بہتر ہے۔انہوں نے کہا کہ انکا یہ تجربہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان
بہت زیادہ میل جول کی بنا پرکچھ عرصہ بعد انکی یہ دوستی ایک دوسرے سے نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر دوستی کو رشتہ میں تبدیل کرنے کی خواہش پیدا ہو تو مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہیے اور والدین کو رضامند کرنا ضروری ہے،اگر وہ راضی نہ ہوں تو ان کی بات مان لینی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ اس کا بہتر انعام دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر دینی احکامات کو نظر انداز کرکے مروجہ کلچر کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے
اور اب پسند کی شادی، ماں باپ کی پسند سے شادی کے بعد شادی آن لائن بھی ہورہی ہیں مگر اس کے لئے تعلیم بھی ضروری ہے ورنہ نتیجہ دھوکہ بازی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ والدین کی ذمہ داری ہے کو وہ اپنے بچوں کے نکاح کو آسان بنائیں اوراس کی راہ میں مشکلات نہ پیدا کریں اور اسی طرح نوجوانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جہیز کی لعنت کے خلاف جہاد کریں۔