اسلام آباد(پ ر)بلاشبہ اپنی افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے کے پی کے میں ایک ارب پودوں کی شجرکاری ایک انقلابی اقدام تصور کیا جا رہا تھا جسے تجزیہ کار دوسرے صوبوں کے لئے قابل تقلید قرار دہے تھے ۔اِن کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کا یہ چار سالہ دورحکومت میں وہ واحد میگا منصوبہ ہے جس کے دوررس نتائج مرتب ہونگے جس کے مثبت ماحولیاتی اثرات سے دیگر
صوبوں میں بھی جائیں گے ۔اگر یہ منصوبہ اپنے دعوؤں کے عین مطابق پایہ تکمیل تک پہنچ جاتاتو ۔مگر ایسا ہوا نہیں ۔کیونکہ خود سرکاری دستاویزات نے اعدادوشمار کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے کی قلعی کھول دی ہے ۔دستاویزی حقائق کے مطابق شجرکاری کے اس منصوبے میں سنگین کرپشن، بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اصل میں صرف20فیصد یعنی24کروڑ پودوں کی شجرکاری ہوئی۔ 75کروڑ 90لاکھ پودے وہ ہیں جو قدرتی طور پر خود بخود اُگتے ہیں۔ اس میں کسی انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ 24کروڑ پودوں میں سے بھی 15کروڑ 30لاکھ وہ ہیں جو لوگوں میں مفت تقسیم کئے گئے۔ اس طرح ساڑھے بارہ ارب روپے کے اس پراجیکٹ میں نرسریوں کے انتخاب سے لے کر پودوں کی خریداری، تقسیم اور شجرکاری میں افسوسناک بے قاعدگیاں پائی گئیں، کام کی نگرانی نچلے درجے کا عملہ کرتا رہا جو اپنے فرائض شفاف طریقے سے ادا نہ کرسکا چنانچہ 3سو سے زائد اہلکاروں کو کرپشن کے الزامات میں برطرف کر دیا گیا جو بجائے خود منصوبے کی ناکامی کا اعتراف ہے اور منصوبے کی شفافیت پر سوالیہ نشان بھی۔ اپوزیشن پارٹیوں خصوصاً اے این پی نے منصوبے کے اخراجات پر سوالات اٹھائے ہیں اور نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ جنگلات میں اضافہ کرنے کے لئے صوبائی حکومت کی یہ اچھی کوشش تھی
مگر نااہلی، بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے ناکام رہی۔ غلطی جس کی بھی ہے اور جہاں بھی ہوئی حکومت کو چاہئے کہ اسے مان لے اور نیب کے ذریعے اس کی شفاف تحقیقات کرائے۔