اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نفی نہیں کیا جاسکتا،وقت نے فیض آباد دھرنے کے شرکاء کا مؤقف درست ثابت کیا اور وزیر قانون کا استعفیٰ بھی درست تھا، پاکستان کا آئین کشمیریوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے کہ کشمیری کن شرائط پر پاکستان کے ساتھ رہیں گے،عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کرنا نوازشریف کا حق ہے،
تحریک انصاف کا گراف بتدریج گر رہا ہے،مستقبل قریب میں یہ آپ کو پاکستان کی سیاست میں کہیں نہیں ملے گی،پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے،سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت کو فروغ دیں۔جمہوری کے لئے مشکلات تو ہیں مگر میرا ایمان ہے کہ جمہوریت ہی سے ملک میں استحکام آئے گا،لوگوں کو اپنے حقوق ملیں گے،ان کے مسائل حل ہوں گے،سیاسی جماعتوں کے لیڈران ماسوائے الزام تراشی کے باقی کچھ نہیں کرتے،سیاسی جماعتوں کے اندر مقابلے کی فضاء قائم ہونی چاہئے کہ کون بہتر پروگرام کرتا ہے،اپنے ملک کا وقار بلند کرنے کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی،ملک سے بے روزگاری ختم کرنے ایجنڈا دینے کی،ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکالنے کی جدوجہد،عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بلند کرنے کی مگر افسوس یہاں پارٹی قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہیں اور اس کی بنیاد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے رکھی،جو اب دوسری جماعتوں میں تیزی سے سرائیت کرگئی،اس کو روک کر مثبت انداز فکر اپنانا ہوگا،سیاسی جماعتیں آپس میں ٹھیک ہوجائیں،وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بند کردیں تو جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔انہوں نے ن لیگ میں جمہوریت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت پارٹی کے اندر اوپر سے نیچے تک تمام عہدوں کے انتخابات ہوتے ہیں،یہ وجہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود آج بھی پارٹی مضبوط ہے،
بہت کوشش کی گئی کہ پارٹی اور شریف خاندان کو تقسیم کیا جائے مگر اللہ کے فضل وکرم سے مخالفین کو ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ دوسروں کے اشاروں پر ناچنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔سیاسی جماعتوں کے لیڈران ایک دوسرے پر دشنام طرازی سے گریز کریں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آن لائن سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔(ن) لیگ کی مرکزی قیادت کی طرف سے عدلیہ پر تنقید کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا جو سب سے بڑی عدالت ہے،
ہمارے ہاں اس کے علاوہ اور کیا باقی رہ جاتا ہے کہ ہم عوام کے پاس نہ جائیں،اس عدالت کے علاوہ جمہوریت میں ایک اور عدالت بھی ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے عوام کی عدالت ،لیڈر عوام کی عدالت میں جاکر اپنا مؤقف پیش کرتا ہے کہ میں نے کیا جرم کیا جس کی سزا مجھے دی گئی،ن لیگ کا شخصیات سے کوئی ذاتی عناد نہیں ہم ان فیصلوں پر تنقید کر رہے ہیں جو ہمارے خلاف دئیے گئے،پاکستان میں موروثی سیاست پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو موروثیت کے خلاف باتیں کرتے تھے آج وہی موروثیت کا پرچار کر رہے ہیں،
جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ کس اہلیت پر دیاگیا،سیاست میں اس کا نام ہی نہیں سنا گیا،اس کی اہلیت صرف اور صرف جہانگیر ترین کا بیٹا ہونا تھی،مریم نواز اگر آگے آتی ہے اور پارٹی کی بھاگ ڈور سنبھالتی ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں،جن لوگوں کو مریم نواز کے آگے آنے سے اعتراض ہے وہ کوئی اور راستہ اپنالیں۔مسلم لیگ نواز میں اندرونی طور پر اختلافات کی خبروں کو انہوں نے یکسر مسترد کردیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ چوہدری نثار کے نوارشریف سے اختلافات ہیں مگر ان اختلافات کو دور کردیا جائے گا،
سینیٹ کے ٹکٹ جب جاری کئے گئے تو پارلیمانی پارٹی میں ما سوائے چوہدری نثار کے باقی سارے لوگ موجود تھے،باہمی مشاورت سے ٹکٹوں کا اجراء کیا گیا،ٹکٹوں کے حوالے سے کچھ لوگوں پر تحفظات تھے جنہیں خوش اسلوبی سے طے کیا گیا،جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے مشاہد حسین سید کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر اختلاف کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مشاہد حسین سید پڑھا لکھا آدمی ہے مجھیان کے ساتھ کوئی اختلف نہیں۔انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے کوئی بھی طاقت ان انتخابات کو روک نہیں سکتی،
سینیٹ میں (ن) لیگ کی کامیابی کے بعد ان کے چیئرمین بننے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ن لیگ میں سینئر ہوں سینیٹ چیئرمین بننا میرا حق بنتا ہے مگر پارٹی قائد نوازشریف جو بھی فیصلہ کریں گے اسے قبول کروں گا۔پاکستانی سیاست میں مذہبی عناصر کا شامل ہونا انہوں نے خوش آئند قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ملک میں97فیصد آبادی مسلمان ہے اور اس ملک کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر رکھی گئی لہٰذا مذہب کو سیاست سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔فیض آباد دھرنے کے حوالے سے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توہین رسالت کے حوالے سے لوگوں کے جذبات تھے جس کا اظہار انہوں نے کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ ان کا مؤقف صحیح تھا ساتھ ہی وزیر قانون کا استعفی بھی درست تھا،
توہین رسالت کے قانو سے چھیڑ چھاڑ کے حوالے سے میری سربراہی میں جو کمیٹی بنی تھی ہم نے پوری دیانتداری سے تحقیقات کیں اور ملوث افراد کی نشاندہی کی ،رپورٹ پارٹی قائد میاں نوازشریف کے حوالے کردی۔انہوں نے پاکستانی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو نفی نہیں کیا جاسکتا کچھ فیصلے ان کی باہمی مشاورت سے کئے جاتے ہیں جو ملکی مفاد میں ہوتے ہیں،اسٹبلشمنٹ پاکستان کا حصہ ہے ان کا تعلق کسی دوسرے ملک سے نہیں۔سی پیک اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ کوئی بھی فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے خلاف نہیں ہوگا،بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر یہ بات درج ہے کہ کشمیریوں کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کن شرائط پر رہیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی،پاکستان کشمیر کی سرحدوں کا امین ہے،کشمیری جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں دل وجان سے قبول ہوگا۔