ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اسٹیٹ بینک گورنر طارق باجوہ کے دستخط شدہ نئے کرنسی نوٹوں کا اجرا،2 فروری 2018 سے کرے گا

datetime 31  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) گورنر طارق باجوہ کے دستخط شدہ نئے کرنسی نوٹوں کا اجرا بینکنگ سروسز کارپوریشن (ایس بی پی- بی ایس سی)کے فیلڈ دفاتر کے ذریعے کرے گا۔ ان کے پیش رو کے دستخط شدہ کرنسی نوٹ قانونی حیثیت کے ساتھ زیرِاستعمال رہیں گے ۔دریں اثناء اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طارق باجوہ نے تمام بینکوں کے صدور اور سی ای اوز پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اداروں میں زرعی قرضے کے فروغ کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں،

جن میں تمام گروپ سربراہان شامل ہوں اور وہ ذاتی طور پر ان کمیٹیوں کی سربراہی کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے 31جنوری 2018 کوکراچی میں زرعی قرضے کی مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی) کے وسط مدتی جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ جولائی تا دسمبر 2017 کیدوران زرعی قرضوں کی فراہمی کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئیانہوں نے زرعی قرضے کے فروغ کے لیے بینکوں کی کوششوں کو سراہا ۔ انہوں نے کہا کہ بینکوں نے مالی سال 18 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 432 ارب روپے جاری کیے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1001 ارب روپے کیزرعی قرضوں کی فراہمی کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرعی قرضوں کے انفراسٹرکچر میں بہتری آنے سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے کم سہولتوں کے حامل صوبوں میں زرعی قرضوں کی فراہمی کے حوالے سے مثبت رجحان پیدا ہوا ہے، تاہم زرعی قرضوں کے انفراسٹرکچر میں مزید اضافہ کرکے علاقائی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ زرعی قرضوں کی فراہمی کو ترجیح بنانے کی غرض سے گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ ہدایت دی کہ زرعی قرضوں کے فروغ کے لیے ادارہ جاتی کمیٹیوں کی مدد سے باہمی اشتراک میں اضافہ ہوگا اور اداروں کے اندر زرعی قرضوں کی فراہمی کی نگرانی یقینی بن سکے گی۔ انہوں نے بینکوں کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ زرعی قرضوں کا مثر ڈھانچہ تشکیل دیں،

جس میں زرعی قرضوں کی ٹیموں کی رپورٹنگ لائنز مربوط ہوں تاکہ زرعی مالیات بینکوں کی کارکردگی کا ایک کلیدی اظہاریہ بن جائے۔ اجلاس کے شرکا سے کلیدی خطاب میں انہوں نے اے سی اے سی کے 25 اگست 2017 کو ہونے والے گذشتہ اجلاس کے دوران شناخت کیے گئے چار اہم نکات یاد دلائے۔ ان میں 1001 ارب روپے کے قرضے کے اجرا کا ہدف حاصل کرنا، خصوصا پیداواری قرضوں کے لیے چھوٹے کاشت کاروں کی قرضہ ضروریات پوری کرنے کے لیے مالی شمولیت میں اضافہ کرنا،

زرعی قرضوں پر مارک اپ ریٹس کو معقول بنانا تاکہ نہایت کم ڈسکاونٹ ریٹ کے فائدے کاشت کاروں کو منتقل کیے جائیں، اور علاقائی تفاوت کم کرنے کے لیے کم ترقی یافتہ علاقوں اور صوبوں میں بینکوں کے اثرات بڑھانا شامل ہیں۔گورنر نے بتایا کہ پہلے چھ ماہ کے دوران بینکوں سے زرعی قرضے لینے والوں کی تعداد میں 182000 کا اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ مائیکروفنانس بینکوں کے قرض لینے والوں کی شمولیت ہے۔ تاہم گورنر نے پانچ بڑے کمرشل بینکوں اور اسپیشلائزڈ بینکوں کے قرض لینے والوں کی تعداد میں کمی پر تشویش ظاہر کی

اور بینکوں کو ہدایت کی کہ دس لاکھ نئے قرض لینے والوں کا مجموعی ہدف حاصل کرنے کے لیے چھوٹے قرض لینے والوں کی تعداد بڑھانے کے لیے اصلاحاتی اقدامات کریں۔ انہوں نے اسلامی بینکوں پر بھی زور دیا کہ اپنے زرعی قرضہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنا کر اور اختراعی مصنوعات متعارف کرا کے زرعی فنانس انڈسٹری کے فروغ میں کردار ادا کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران بینکوں کی زرعی شرح قرض گاری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کمرشل نیز مائیکروفنانس بینکوں پر زور دیا کہ کہ اپنے کاروباری امور کا جائزہ لیں اور چھوٹے کاشتکاروں کو سستی شرحوں پر زرعی قرضے فراہم کریں۔

انہوں نے کمرشل بینکوں کو بھی ترغیب دی کہ خصوصا کم سہولتوں کے حامل علاقوں میں مائیکرو فنانس بینکوں اسلامی بینکوں کے وسیع نیٹ ورک کا فائدہ اٹھائیں اور ان اداروں کو فنڈنگ فراہم کریں۔زرعی چیمبرز کے نمائندگان نے زرعی پراسیسنگ یونٹس اور لائیو اسٹاک فارمنگ کے لیے کنٹرولڈ شیڈز کی تنصیب کی خاطر فنانسنگ کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عہدیداروں نے بھی زرعی قرضوں کے فروغ کے لیے ان اقدامات کی حمایت کی۔ بینکوں نے اسٹیٹ بینک کے مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔

اختتامی کلمات میں گورنر نے مالی سال 2017-18 کے لیے زرعی قرضے کے مجموعی ہدف کے حصول، چھوٹے کاشتکاروں کو پیداواری قرضوں کی فراہمی، روزگار میلوں کے قیام کے ذریعے خصوصا کم سہولتوں کے حامل صوبوں میں زرعی قرضے کا ڈھانچہ بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے بینکوں، صوبائی محکمہ ہائے زراعت اور چیمبرز کی حوصلہ افزائی کی کہ چھوٹے کاشتکاروں کو رقوم کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مسائل حل کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں۔ آخر میں انہوں نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ مالی ادارے خصوصا بلوچستان، کے پی کے، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر جیسے کم سہولتوں کے حامل علاقوں میں اپنے صوبائیعلاقائی اہداف کے علاوہ 2017-18 کا سالانہ مجموعی ہدف حاصل کرلیں گے۔اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے سینئر حکام، بینکوں کے صدور اور ایگزیکٹوز، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں اور زراعت کے صوبائی چیمبرز نے شرکت کی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…