کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نقیب اللہ محسود کے معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی کی جانب سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، نجی ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اپنا بیان تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے ریکارڈ کرا دیا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نقیب اللہ کے خلاف اب تک کوئی واضح اور ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے،
انکوائری کمیٹی گرفتار قاری ملک احسان کا بیان لینے جیل روانہ ہو چکی ہے واضح رہے کہ ملک احسان 2014 سے گرفتار ہے، ملک احسان سے انکوائری کمیٹی پوچھے گی کہ کیا نقیب اللہ اس کا ساتھی تھا یا نہیں، 2014 میں درج کی گئی ایف آئی آر میں نقیب اللہ کی ولدیت درج نہیں ہے۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے تھانہ سچل میں درج ایف آئی آر پیش کی تھی۔ راؤ انوار نے کہا کہ وہ انکوائری کمیٹی کا سامنا کریں گے اور ثبوت دیں گے کہ نقیب ملزم تھا، انہوں نے کہا کہ نقیب اقدام قتل اور دہشتگردی کے مقدمات میں مفرور تھا، اس پر مقدمہ سچل تھانے میں درج ہوا تھا۔ راؤ انوار نے کہا کہ 2014 میں نور عالم، زاہد اللہ اور اس کے دو دیگر ساتھی مقابلے میں مارے گئے تھے، ان کا سرغنہ عابد مچھڑ، سیف الدین محسود، ارشاد محسود، نقیب محسود، مولوی یار محمد مفرور تھے، انہوں نے بتایا کہ تاوان کے لیے میمن تاجر کو بھی اغوا کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایس ایس پی ملیر نے کہا کہ اگر نقیب لاپتہ تھا تو اس کے ورثاء نے پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟ انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ 100 فیصد جرائم پیشہ ہے، ایس ایس پی ملیر نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حلیم عادل کے خلاف مقدمہ درج کیا اسی وجہ سے میرے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نقیب اللہ محسود کے معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی کی جانب سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، نجی ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اپنا بیان تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے ریکارڈ کرا دیا ہے۔