پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے اس بات پرتعجب کا اظہار کیا ہے کہ حکمران ملک میں بجلی کی قلت کا گردان کرتے نظر آتے ہیں لیکن صوبے میں تیار پن بجلی کو نیشنل گرڈ میں داخل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں، شاید حکمرانوں کو مہنگی بجلی خریدکر اسکا بوجھ عوام کو منتقل کرنے میں دلچسپی ہے۔ واپڈاکی طرف سے صوبائی حکومت کی پیدا کردہ اضافی پن بجلی نہ تو معاہدے کے مطابق خریدنے
اور نہ ہی اسے بروئے کار لانے کیلئے ٹرانسمیشن لائن سمیت دیگر ضروری لوازمات کی عدم تکمیل انتہائی پریشان کن اور ناقابل فہم ہے اس لئے صوبائی حکومت اس مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی) میں بھی لے جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ واپڈا کو کون سمجھائے کہ ملک و قوم کی بھلائی سستی بجلی پیدا کرنے میں ہے یا مہنگی بجلی سے عوام پر بوجھ ڈالنے اور صنعتی و معاشی ترقی کیلئے مشکل ترین راستے اپنانے میں ہے۔انہوں نے ہدایت کی کہ محکمہ توانائی صوبے میں مسلسل لوڈ شیڈنگ اور عوامی مشکلات کے پیش نظر تعلیمی اداروں،ہسپتالوں، مساجد اورگھروں کو شمسی توانائی کے نظام سے منسلک کرنے کا ماڈل تیار کرے ۔ اگلے چند مہینوں میں 8000سکولوں، 5600گھروں اور4000مساجد کی سولر بجلی پر منتقلی کا کام شروع ہو جائے گا جودو مراحل میں پایہ تکمیل کوپہنچایا جائے گا ۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ صوبے میں گذشتہ چار سال کے دوران کئی نئے پن بجلی گھروں کی تعمیرپر کام شروع کیا گیا ۔کوہاٹ میں تیل و گیس کی نئی دریافت سے صوبے کو ایک بلین روپے کی اضافی رائلٹی ملے گی ۔وہ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں محکمہ توانائی کی طرف سے پیش کردہ کارکردگی رپورٹ اور توانائی کے منصوبوں سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جس میں صوبائی وزیر توانائی محمد عاطف خان، چیف سیکرٹری محمد اعظم خان، سیکرٹری توانائی
انجینئر محمد نعیم خان، ایس ایس یو کے سربراہ صاحبزادہ سعید، صوبائی تیل و گیس کمپنی کے سربراہ رضی الدین ، صوبائی ادارہ توانائی پیڈو اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے پن بجلی کے قلیل المیعاد ، وسط مدتی اور طویل المدتی پیداوار کا مکمل خاکہ تیار کیا ہے ۔فی الوقت قلیل المیعاد منصوبوں کے تحت 124 ملین ڈالر کی لاگت سے قلیل میعاد کے57 میگاواٹ کے تین پراجیکٹس تیار کئے گئے ہیں ۔درمیانی مدت کے سات منصوبوں سے 315.8 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی جس پر 673 ملین ڈالر خرچ ہوں گے جبکہ طویل المیعاد منصوبوں سے 4003میگاواٹ کے کئی نئے بجلی گھروں پر کام تکمیل کے مختلف مراحل میں ہے جن پر 11150 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔
انہوں نے محکمہ توانائی کو ہدایت کی کہ صوبے میں پن بجلی ،آئل و گیس اور سولر انرجی سمیت توانائی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں پر بھرپور توجہ دی جائے ۔ وزیر اعلیٰ نے صوبے میں سولرائزیشن کے پہلے مرحلے پر فوری کام شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ کام مربوط انداز میں آگے بڑھنا چاہئے اور مرحلہ وار صوبے کے تمام شہروں اور دیہات کے گلی کوچوں اور بازاروں سے لے کر گھروں، سکول و ہسپتال اور مساجد کومنور کرنا چاہئے تاکہ یہاں کے عوام اور اداروں کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ہمیشہ کیلئے نجات دلائی جا سکے۔انہوں نے ہدایت کی کہ صوبے بھر میں صحت سنٹرز، ڈی ایچ کیوز، آر ایچ سی اور بی ایچ یو ز کو بھی سولر انرجی پر منتقلی کے کام کا آغاز کیا جائے۔
اسی طرح صوبے کے دور افتادہ علاقوں میں نو تعمیر شدہ منی مائکرو پن بجلی گھروں کو متعلقہ کمیونٹی کو حوالے کرنے کیلئے طریقہ کار کو حتمی شکل دی جائے اس میں مزید تاخیر پرمتعلقہ ذمہ داران سے باز پر س کی جائے گی ۔وزیر اعلیٰ نے مزید 650 چھوٹے پن بجلی گھروں کی منظوری بھی دی اور ان منصوبوں پر کام تیز کرنے کی ہدایت کی۔وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ صوبے میں 124ملین ڈالر کی لاگت سے قلیل میعاد کے 57میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے تین پراجیکٹس تیارکئے گئے ہیں۔ اسی طرح درمیانی مدت کے سات منصوبوں سے 315.8میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جن پر کل لاگت کا تخمینہ 673ملین ڈالر ہے جبکہ طویل المیعاد 21منصوبوں سے 3631میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی جن پر کل لاگت 11,150ملین ڈالر ہے۔
پرویز خٹک نے واضح کیا کہ صوبہ میں پن بجلی کے تمام منصوبوں پر12 بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور اس سے آئندہ سالوں میں 4003میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی انہوں نے صوبہ میں پیدا کی جانے والی بجلی کی اضافی پیداوار سرکاری دفاتر، صنعتوں، لفٹ ایریگیشن سکیموں اور مختلف علاقوں کو دینے کی منظوری دی ۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ واپڈا بجلی کے تیار پراجیکٹس کو ٹرانسمیشن لائن کی خدمات نہیں دے رہا ہے جس سے صوبے کو کروڑوں روپے کا نقصان روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں بجلی کے تیار پراجیکٹس کو connectivityنہ دینا اورpower purchasing معاہدے نہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے اس لئے صوبائی حکومت اسلام آباد میں منعقدہ CCI اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھائے گی ۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ مائیکرو پن بجلی گھروں کی تکمیل کے بعدانہیں متعلقہ کمیونٹیز کے حوالے کرنے کیلئے قانونی سقم کو دور کرنے کا آسان طریقہ کار اپنایا جائے ۔چھوٹے پن بجلی گھروں کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی حکومت 650 مزید چھوٹے پن بجلی گھر بنانا چاہتی ہے تاکہ بجلی کے مین ٹرانسمیشن لائن سے دوری پر واقع دیہات کو بجلی کی مقامی سطح پر فراہمی ممکن ہو اور یہ ارزاں ریٹ پر میسر ہو ۔تیارچھوٹے پن بجلی پراجیکٹس کی مینٹننس ، مینجمنٹ اور آپریشن حتمی شکل میں کمیونٹی کے پاس ہونی چاہیئے ۔وزیراعلیٰ کو صوبے بھر میں مختلف پن بجلی گھروں کی تعمیر سے متعلق تفصیلی بریفینگ دی گئی۔
اُنہوں نے سی پیک اور نان سی پیک پن بجلی گھروں کے حوالے سے کہاکہ صوبے میں پن بجلی کی اس قدرتی نعمت کو پرائیوٹ سیکٹر کیلئے بھی کھولاجا سکتا ہے ۔اگر اضافی بجلی کو نیشنل گرڈ میں ڈالنے سے مزید تاخیر ہوتی ہے تو اس بجلی کو سرکاری دفاتر ، پرائیوٹ صنعتوں ، مقامی آبادیوں اور لفٹ اریگیشن سکیم کو دیا جا سکتا ہے۔اسی طرح ہم 10 گنا زیادہ بلوں کی ادائیگیوں سے بھی چھٹکارا پالیں گے ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اربوں روپے خرچ کرکے ہم نے پن بجلی گھر کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا ہے۔تیار بجلی کی نیشنل گرڈ میں شامل نہ ہونے سے صوبے کو روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ قومی سطح کا ظلم ہے اور اس سے زیادہ ظلم یہ ہے کہ ہم سب خامو ش تماشائی بن کر اس ظلم کو دیکھ رہے ہیں۔ اُنہوں نے متعلقہ حکام پر زور دیا کہ وہ صنعتی زونز ، سرکاری دفاتر ، لفٹ ایرگیشن سکیم اور دیگر ضروری جگہوں پر بجلی کا مصرف نکالنے کیلئے طریقہ کار وضع کریں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہمیں ادراک ہے کہ عوامی فلاح کے کام میں چیلنجز سر اُٹھاتے ہیں ، رکاوٹیں آتی ہیں لیکن ہمیں ڈرنا نہیں چاہیئے ۔ہم عوام کی فلاح پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے ۔ہم نے عوام کو جوابدہ ہو کر اُن کی فلاح یقینی بنانا ہے۔انہوں نے بجلی کے مختلف منصوبوں کو پی پی پی موڈ میں ڈالنے کیلئے حتمی کیس تیار کرنے کی ہدایت کی اور اس میں حائل چیلنجز کا ادراک کرکے حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت پر زو ردیا۔