لندن/نیویارک/اسلام آباد(این این آئی)اگرچہ رواں صدی میں یہ دنیا سائنس ، ٹکنالوجی اور صنعت کے شعبوں میں انقلابی پیش رفت دیکھ رہی ہے تاہم دوسری جانب کروڑوں افراد ایسے بھی ہیں جن کو قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء بھی میسر نہیں ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق بیت الخلاء کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی ویب سائٹ
پر جاری رپورٹ میں کہاگیاکہ دنیا کی آبادی میں 60% لوگ (4.5 ارب افراد) ایسے ہیں جو یا تو گھروں میں بیت الخلاء سے محروم ہیں اور یا پھر جو بیت الخلا موجود ہے وہاں فضلے کے محفوظ طریقے سے اخراج کی صورت نہیں ہے۔سال 2001 میں اقوام متحدہ نے ہر سال 19 نومبر کو بیت الخلاء کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد دنیا بھر میں گندے پانی اور غلاظت کی نکاسی کے بحران کا علاج کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سال 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 2.3 ارب افراد کے پاس قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء نہیں ہیں۔ دنیا کے ہر 10 میں سے ایک شخص کھلے آسمان کے نیچے قضائے حاجت سے فارغ ہوتا ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دنیا بھر کے صرف 39% لوگ (2.9 ارب افراد) نکاسیِ آب کے محفوظ نیٹ ورک سے متصل بیت الخلاء استعمال کرتے ہیں۔دنیا بھر میں صحت کے ابتر حالات کے سبب مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر سالانہ 2.8 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں اسہال ، ہیضہ ، جگر کا انفیکشن ، میعادی بخار اور آنتوں کے امراض شامل ہیں۔بھارت کا شمار جوہری ہتھیار رکھنے والے چند ممالک میں ہوتا ہے تاہم شہریوں کے پاس بیت الخلاء نہ ہونے کے لحاظ سے اس کا دنیا بھر میں پہلا نمبر ہے۔ اس فہرست میں چین کا دوسرا نمبر ہے۔ اس کے بعد انڈونیشیا ، نائیجیریا ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، ایتھوپیا ، کانگو ، برازیل اور پھر تنزانیا کا نام آتا
ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق صحت کے ابتر حالات ہر سال دنیا بھر میں اندازا 260 ارب ڈالر کے خسارے کا سبب بنتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق بیت الخلاء کی عدم دستیابی کے نتیجے میں جنم لینے والی بیماریوں کا سب سے زیادہ شکار خواتین اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ یہ صنف نازک قضائے حاجت کے لیے اپنے گھروں سے 300 میٹر دور جانے پر مجبور ہوتی ہیں۔