لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے قادیانیوں سے متعلق اپنے بیان کی پنجاب اسمبلی کے ایوان میں وضاحت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے تحقیقات کیلئے بنائی گئی کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی اس پر من وعن عملدرآمد کیا جائے گا ،ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان جنوبی پنجاب میں تین شوگر
ملوں کی منتقلی کے معاملے پر تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تاہم دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ احتجاج کرنے والے کسانوں سے مذاکرات کئے جائیں ،کسانوں نے سات لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا کاشت کر رکھا ہے اور اگراس معاملے کو حل نہ کرایاگیا تو نہ صرف کاشتکار بلکہ ہم بھی تباہ ہو جائیں گے ، حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے مولانا غیاث الدین نے پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے ا ور میرے اہل خانہ کیساتھ جو سلوک کیا گیا ایسا تو بھارتی فوج اور پولیس کشمیری مسلمانوں کیساتھ کرتی ہے جبکہ اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے حکومتی رکن سے اظہار یکجہتی اور پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف ایوان کی کارروائی سے ٹوکن واک آؤٹ بھی کیا ۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز اپنے مقررہ وقت دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ پانچ منٹ کی تاخیر سے اسپیکر رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس کے آغاز پر حکومتی بنچوں پر صرف پانچ اراکین موجود تھے ۔ اجلاس میں محکمہ آبپاشی اور اوقاف و مذہبی امور سے متعلقہ سوالات پوچھے جانے تھے تاہم اسپیکر رانا محمد اقبال نے ایوان کو بتایا کہ وزیر آبپاشی بیمار ہیں جس کے باعث ان کے محکمے کے سوالات ایک ہفتے کے لئے موخر کر دئیے گئے ۔ حکومتی رکن اسمبلی میاں طارق محمود نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ایک روز قبل بھی یہی معاملہ تھا اور آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے ،بہت سے اہم سوالات ہیں جس پر اسپیکر نے انہیں کہا کہ وہ بیمار ہیں جس پر میاں طارق محمود نے کہا کہ جب کارکردگی نہ تو پھر بیمار ہی ہوتا ہے ۔
وزیر نہیں تو پارلیمانی سیکرٹری کہاں ہیں جس پر اسپیکر نے کہا کہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں اور وہ پیشگی آگاہ کر چکے ہیں ۔وقفہ سوالات کے دوران محرکین کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر محکمہ مذہبی امورو اوقات کے تمام سوالات کچھ وقت کیلئے ملتوی کر دئیے گئے اور بعد ازاں جب دوبارہ وقفہ سوالات شروع کیا گیا تو ایک رکن اسمبلی راحیلہ انور کے ایوان میں آنے پر ان کے صرف دو سوالات زیر بحث آئے ۔
راحیلہ انور نے اپنے ضمنی سوال کے جواب میں کہا کہ جہلم میں محکمہ اوقات کی اراضی پر جگہ جگہ قبضے ہے اور میں اس کے ثبوت بھی دے سکتی ہوں ۔ پارلیمانی سیکرٹری محمد ثقلین انور سپرا نے کہا کہ ضلع جہلم میں محکمے کی ایک انچ زمین پر بھی ناجائز قبضہ نہیں ۔ راحیلہ انور نے اپنے دوسرے سوال میں بھی اسی طرح کا موقف اپناتے ہوئے کہا کہ خود حکومت کے اپنے لوگوں نے محکمے کی اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے اور وہاں ڈیرے بنے ہوئے ہیں ۔ جب حکومت کے لوگ ایسا کریں گے تو دوسرے لوگوں کو تو شہ ملنی ہے ۔
جس پر اسپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری اور راحیلہ انور کو اجلاس کے اختتام پرا پنے دفتر میں بلا لیا ۔ اجلاس کے دوران حکمران جماعت کے رکن اسمبلی مولانا الیاس چنیوٹی نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں ختم نبوت کے حلف نامے کے حوالے سے معاملات سامنے آئے اور اس کے بعد وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان کے بیان سے بھی ایشو کھڑا ہو گیا۔ میرا رانا ثنا اللہ سے رابطہ ہوا اور ان سے تفصیلی بات ہوئی ہے ۔
میں ان سے کہتا ہوں کہ قادیانیوں پر لعنت بھیجنے پر عار نہیں ہونی چاہیے تاکہ اگر کوئی اپنامفاد اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے تو ایسے عزائم دم توڑ جائیں ۔ پاکستان میں فوج تو کیا کسی بھی محکمے میں قادیانیوں کو بھرتی کرنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح شناختی کارڈکے فارم میں ختم نبوت او رمذہب کا خانہ موجود ہے شناختی کارڈ میں بھی اس کا اضافہ کیا جائے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی تھی ۔
اس کی رپورٹ محمد نواز شریف تک پہنچ گئی ہو گی ۔ ایسی کوشش کرنے والے صرف مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے مجرم ہیں ۔ ان عناصر کو نہ صرف قوم کے سامنے آنا چاہیے بلکہ انہیں قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے ۔جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ قوم ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہے ۔ راجہ ظفر الحق نے خود کہا ہے کہ یہ غلطی نہیں بلکہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے ۔
قوم کا مطالبہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کے نام سامنے آنے چاہئیں اور مٹی پاؤ پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس معاملے پر ملک کے اندر تشویش موجود ہے ۔ قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے کہا کہ یہ سہواً یا قصداً ہوا ہے اس کے ذمہ داران کے نام منظر عام پر آنے چاہئیں اور انہیں قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے ۔
انہوں نے وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حساس معاملات پر لب کشائی نہ کیا کریں ۔ہمار امطالبہ ہے کہ اس سلسلہ میں جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس کی رپورٹ کو شائع کیا جائے ۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ اراکین اسمبلی نے جو بھی باتیں کی ہیں میں انکی مکمل تائید کرتا ہوں ۔مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہی لا الہ اللہ اور ختم نبوت ؐ کے عقیدے پر کامل یقین ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی کا اس پر کامل یقین نہیں تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور وہ شخص مسلمان ہی نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ٹی وی ٹا ک شو میں دئیے گئے میر ے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ۔ پوری دنیا میں بر صغیر خصوصاًپاکستان کے لوگ عشق نبی ﷺ میں سب سے آگے ہیں او راس کا متعدد بار مظاہرہ بھی ہوا ہے ۔ دنیا کے کسی خطے میں بھی شان رسول ﷺ میں کوئی گستاخی ہوتو دنیا کے کسی خطے میں اگر رد عمل سامنے آیا ہے تو وہ پاکستان ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں قائد حزب اختلاف کی اس بات سے متفق ہوں کہ ماسوائے علمائے جو دین کے جزویات کو سمجھتے ہیں اور جنہیں شریعت پر مکمل عبور ہے وہی بات کریں اور عام آدمی کو ان معاملات کو ایسے زیر بحث نہیں لانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کہا تھاکہ پاکستان کے آئین میں غیر مسلم اقلیتوں کو ہر طرح کی مذہبی اور شہری آزادی حاصل ہے اور ان کے جان و مال اور مذہبی عبادتگاہوں کی حفاظت حکومت کا فرض ہے
لیکن جہاں تک قادیانیوں کا تعلق ہے تو ان کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ انہیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر مذہبی آزادی نہیں دی جا سکتی ۔ یہ خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کرتے اور خود کو مسلمان ظاہر کر کے شعائر اسلام کی پریکٹس کرتے ہیں اور ان کی کتب اور رسائل میں آیات کا حوالہ دیا گیا ہے اور انہیں ضبط کیا گیا ہے ۔ لیکن میرے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ختم نبوت ؐ کے معاملے میں قطعاً کوئی دوسری رائے نہیں ۔
اگر علماء کرام یا اراکین اسمبلی اس حوالے سے کوئی تدبیر یا تجاویز دیتے ہیں تو ان پر عملدرآمد ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے پر تحقیقات کیلئے کمیٹی بنائی ہے یہ کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی اسے من و عن تسلیم کیا جائے گا ۔ اگر مولانا الیاس چنیوٹی اس حوالے سے کوئی لیگل ایکشن ایوان کے علم میں لانا چاہتے ہیں توحکومت اسی سپرٹ سے اس پر عملدرآمد کے لئے تیار ہے ۔
قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اسپیکر کی توجہ کسانوں کے احتجاج کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ٹھوکر نیاز بیگ کے مقام پر کنٹینر لگائے جانے کے باعث ہزاروں لوگ مشکلات کا شکار ہیں ۔ حکومت کسانوں کو سہولیات فراہم کرنے کے نام پر اتنا پراپیگنڈا کرتی ہے لیکن کسان روز سڑکوں پر ہوتے ہیں ۔ حکومت کسانوں سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے ۔
اسی دوران حکومتی رکن اسمبلی سید سبطین رضا نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر خان ترین کی وجہ سے یہ حالات ہوئے ہیں جس پر قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میں پہلے بات نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اب بات ہو گئی ہے ۔لاہو رہائیکورٹ شریف خاندان کی تین شوگر ملوں کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے ۔ ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کو لاہو رہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے بر قرار رکھا جبکہ سپریم کورٹ سے بھی اسی طرز پر فیصلہ آیا ۔ اس دوران سید سبطین رضا نے بھی بولنا شروع کر دیا اور اپوزیشن کے اراکین نے بھی شور شرابہ شروع کر دیا اور دونوں جانب سے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ۔
تاہم اسپیکر نے مداخلت کراتے ہوئے اراکین کو خاموش کر ادیا۔میاں محمد رفیق نے کہا کہ کسان کے سلوک ہونے والا سلوک سب کے سامنے ہے ، سبسڈی کسان کو زندہ نہیں رکھ سکتی ،زمین کا ٹکڑا نہ کسان کو جینے دیتا ہے اور نہ مرنے دیتا ہے۔میاں اسلام اسلم نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر خان ترین کے حکم امتناعی کی وجہ سے گنے کے کاشتکار شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔
انہوں نے اسپیکر سے استدعا کی کہ آپ خود اس معاملے کو دیکھیں یا حکومت کو پابند کیا جائے کیونکہ ساڑھے سات لاکھ ایکڑ پر گنے کی کاشت ہوئی ہے اوریہ معاملہ حل نہ ہوا تو نہ صرف کسان بلکہ ہم بھی تباہ ہو جائیں گے ۔ جس پر اسپیکر نے حکومت کو ہدایت کی کہ اس معاملے کو دیکھا جائے ۔اس دوران سردار شہاب الدین نے ایوان میں تحریک استحقاق پڑھی جسے جواب نہ آنے پر ایک ہفتے کیلئے موخر کر دیا گیا ۔
حکمران جماعت کے رکن اسمبلی مولانا غیا ث الدین نے پولیس کی طرف سے ان کے گھر میں بلا وارنٹ داخل ہونے ، بیٹوں کی گرفتاری کے حوالے سے تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا تو بھارتی فوج اور پولیس کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کرتی ہے ۔ پارلیمانی سیکرٹری کے جواب پر اسپیکر نے کہا کہ اس کی رپورٹ منگوا لیتے ہیں لیکن انہوں نے اس پر شدید احتجاج کیا جس پر میاں محمود الرشید نے کہا کہ اگر ایک رکن اسمبلی کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا ۔
پولیس کو کیسے رکن اسمبلی کے گھر میں داخل ہونے کی جرات ہوئی اور اپوزیشن اراکین نے مولانا غیاث الدین سے اظہار یکجہتی اور پولیس کے رویے کے خلاف ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کیا ۔اس موقع پر ڈاکٹر وسیم اختر نے حکومتی اراکین کو بھی ساتھ چلنے کے لئے کہا لیکن کوئی بھی رکن ان کے ساتھ نہ گیا ۔ بعد ازاں اسپیکر نے تحریک استحقاق کوکمیٹی کے سپرد کر کے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی آصف محمود نے کہا کہ میں نے ایک تحریک استحقاق جمع کرا رکھی ہے لیکن اسے ایجنڈے پر نہیں لایا جارہا ۔
اسپیکر نے کہا کہ آپ کی تحریک استحقاق میرے پاس نہیں آئی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں جو امیدوار مجھ سے ہارا ہے ترقیاتی منصوبوں پر بطور رکن اسمبلی اس کے نام کی تختیاں لگائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلخ رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ اراکین کی عزت کوایسے تار تار نہ کریں مجھے وہ وقت نظر آرہا ہے کہ آپ یہاں ان بنچوں پر بیٹھے ہوں گے ۔مجھے بتایا جائے بزنس کو ایجنڈے میں شامل کرانے کے لئے سیکرٹری صاحب کو کتنے سلیوٹ کرنا ہوتے ہیں میں وہ کر دیتا ہوں۔
جس پر اسپیکر نے کہا کہ میں نے ایوان کو کسی قاعدے اور قانون کے مطابق چلانا ہوتا ہے جس پرآصف محمود نے کہا کہ آپ ایوان کو قاعدے اور قانون کے مطابق چلا رہے ہیں ۔ ہمیں رسوا کرایا جاتا ہے آپ اس کو اسمبلی کہتے ہیں ۔ جس پر اسپیکر نے انہیں سختی سے ڈانتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں جبکہ سپیکر نے ان کے الفاظ کارروائی سے حذف کرادئیے ۔ میاں محمود الرشید نے کہا کہ جناب اسپیکر آپ دیکھیں ایک رکن اسمبلی اتنا دل گرفتہ ہے
کیسے ایک غیر منتخب شخص اپنے نام کے ساتھ رکن اسمبلی لکھ رہا ہے اس سے رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح ہوا ہے ۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے کہا کہ یہ اپنی تحریک جمع کرائیں میں اسے دیکھ لیتا ہوں اور جبکہ حلقے میں ترقیاتی منصوبوں پر غیر منتخب شخص کے بطور رکن اسمبلی نام کی تختیاں لگانے کی بھی تصدیق کرا لیتے ہیں ۔ اجلاس میں قائمہ کمیٹی برائے سروسز اینڈ جنرل ایڈ منسٹریشن،تحفظ ماحول، ہاؤسنگ ،اربن ڈویلپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ،مقامی حکومت کی رپورٹیں ایوان میں پیش کی گئیں ۔
اجلاس میں اراکین کی رخصت کی درخواستیں بھی منظور کی گئیں۔ پرائیویٹ ممبر ڈے پر نگہت شیخ کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ صوبہ پنجاب کے تمام گرلز سکولز ، کالجز اوریونیورسٹیز میں مرحلہ وار مدر کےئر سنٹرز کاقیام عمل میں لایا جائے ۔ جس پر پارلیمانی سیکرٹری نذیر گوندل نے کہا کہ مرحلہ وار مد کیئر سنٹرز قائم کئے جارہے ہیں جس پر رکن اسمبلی نے اپنی قرارداد واپس لے لی۔
میاں طارق کی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ حکومت پنجاب کے گریڈ5تا 15کے سرکاری ملازمین کی اپ گریڈیشن کی طرز پر گریڈ 16اور 17کے سرکاری ملازمین کی اپ گریڈیشن بھی کی جائے ۔ ڈاکٹر وسیم اخترنے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس میں ترامیم چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے طریق کار پر شدید تحفظات ہیں ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں سرکاری ملازمین جلسے جلوس کرنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ان کی بات سن لی جائے جن کا حجم کم ہوتا ہے انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ \
اس کے لئے بلا امتیاز پالیسی ہونی چاہیے ۔ تاہم ایوان نے طارق محمود کے متن والی قرارداد کی متفقہ طو رپر منظور ی دیدی ۔ ڈاکٹر وسیم اختر کی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ کھاد پر دی جانے والی سبسڈی کو برقرار رکھا جائے تاکہ کسان ملکی معیشت کی بہتری کیلئے اپنا کردار جاری رکھ سکیں ۔ جس پر رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ یہ سلسلہ تو پہلے ہی جاری ہے ۔تاہم اس قرارداد کی بھی منظوری دید گئی ۔چوہدری محمد اقبال کی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ یہ ایوان وفاقی حکومت سے اس امر کی سفارش کرتا ہے
کہ بذریعہ ایکسپورٹ زرمبادلہ میں ا ضافہ کی خاطر زرعی اجناس خصوصاًچاو ل کی ایکسپورٹ کیلئے دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں میں متعین کمرشل اتاشیوں کیلئے ٹارگٹس فکس کئے جائیں اوران کی ترقی اور مراعات کو ان ٹارگٹس کے ساتھ منسلک کیا جائے ۔حکومتی رکن ملک ارشد نے کہا کہ میں اس کی مخالفت کرتا ہوں اور جہاں لفظ خصوصاً چاول ہے اس کے ساتھ آلو کو بھی شامل کیا جائے اور ان کے اصرار پر ایوان نے ترمیمی قراردا د کی متفقہ طو رپر منظوری دیدی ۔رکنیت معطل ہونے کے باعث حنا پرویز بٹ اور احمد خان بھچر کی قراردادیں پیش نہ ہو سکیں جبکہ سبطین خان کی قرارداد ان کی عدم موجودگی کے باعث نمٹا دی گئی۔