کارل مارکس نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے کیا خوبصورت بات کی تھی‘ اس نے کہا تھا‘ تاریخ ہمیشہ خود کودہراتی ہے‘ پہلے سانحے کی شکل میں اور پھر مذاق کی صورت میں۔آج بارہ اکتوبر ہے‘ آج سے ٹھیک اٹھارہ سال پہلے جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی منتخب حکومت ختم کر دی‘ یہ ایک سانحہ تھا‘ آج اٹھارہ سال بعد یہ تاریخ خود کو مذاق کی صورت میں دہرا رہی ہے‘ آج میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف دونوں نہ صرف اقتدار سے باہر ہیں بلکہ یہ دونوںاس وقت مقدمے بھی بھگت رہے ہیں‘
شریف فیملی کے دو بچے اشتہاری ہو چکے ہیں‘ جنرل مشرف بھی اشتہاری ہیں‘ شریف فیملی بھی لندن بیٹھی ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی دوبئی اور لندن میں مقیم ہیں‘ شریف فیملی کے اکاﺅنٹس بند اور جنرل پرویز مشرف کی جائیدادیں قرق ہو رہی ہیں‘ آپ تاریخ کا مزید مذاق ملاحظہ کیجئے‘ 12کتوبر 1999ءکو میاں نواز شریف کی لڑائی صرف فوج سے تھی‘ یہ آج فوج اور عدلیہ دونوں سے لڑ رے ہیں اوران کے پرانے ساتھی چودھری نثارانہیں مشورے دے رہے ہیں ۔آپ تاریخ کا مزید مذاق بھی ملاحظہ کیجئے آج میاں نواز شریف کو نکالنے والے عمران خان بھی الیکشن کمیشن کے اشتہاری ہو چکے ہیں‘ الیکشن کمیشن نے انہیں گرفتار کر کے کمیشن کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے‘ میں اس حکم کو عمران خان کی بجائے حکومت کے خلاف فیصلہ سمجھتا ہوں کیونکہ اگر عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے سٹے آرڈر نہ ملا تو احسن اقبال کو عمران خان کو گرفتار کرنا پڑے گا اور یہ حکومت کیلئے خطرناک ہو جائے گا‘ تاریخ کے اس مذاق میں خورشید شاہ نے بھی مذاق کر دیالہٰذا آپ آج جس طرف بھی دیکھیں آپ کو اشتہاری ہی نظر آتے ہیں یا پھر مذاق ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے‘ آپ کو کوئی مجھے کیوں نکالا‘ میری کمر میں درد ہے‘ مجھے کیوں پکڑا جا رہا ہے اور 2018ءمیں پیپلز پارٹی کا وزیراعظم ہو گا کے نعرے لگاتا دکھائی دے گا لہٰذا ملک 18 سال بعد قانونی‘ آئینی اور سیاسی لحاظ سے پہلے سے کہیں زیادہ ٹرمائل کا شکار دکھائی دے رہا ہے‘ کیا ہم نے 12 اکتوبر سے کچھ نہیں سیکھا اور ہم تاریخ کے مزید کتنے مذاق سہیں گے؟