بدھ‬‮ ، 19 جون‬‮ 2024 

تبدیلی آگئی،خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف نے وہ کام کردکھایا جو آج تک کوئی نہیں کرسکا

datetime 10  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور(آئی این پی )وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران صوبے بھر میں چار ہزار مساجد کو شمسی توانائی کی سہولت مہیا کر کے نمازیوں کو لوڈشیڈنگ کی تکالیف سے مکمل طور پر نجات دلانے کے علاوہ آئمہ مساجد کی تنخواہیں حکومت کی جانب سے ادائیگی کا پروگرام بھی شروع کیا جا رہا ہے تاکہ مساجد میں لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام یقینی بن جائے

وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں نئے سیاحتی مقامات کی دریافت اور ترقی کا عمل بھی تیز کیا جارہا ہے تاکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے یہاں مزید کشش پیدا ہو اورسفرو سیاحت کی صنعت دن دگنی رات چگنی ترقی کرے وہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں ارکان صوبائی اسمبلی شوکت علی یوسفزئی اورعبدالمنعم خان کی زیرقیادت ضلع شانگلہ کے زعماء اور بلدیاتی نمائندوں کے مشترکہ وفد سے بات چیت کر رہے تھے وفد میں شانگلہ کی گجر برادری کے سربراہ حاجی رحیم داد، ڈسٹرکٹ کونسل سرفراز خان، تحصیل کونسل محی الدین ، امیر سلطان اور بعض مقامی ناظمین بھی شامل تھے جنہوں نے صوبے کو کرپشن سے پاک کرنے اور تباہ حال اداروں کو فعال بنا کر عوامی خدمت کے تابع بنانے پر وزیراعلیٰ کو خراج تحسین پیش کیا اور صوبائی حکومت کی ترقیاتی پا لیسیوں پر عمل درآمد میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایاپرویز خٹک نے واضح کیا کہ شوکت یوسفزئی کی نشاندہی پر شانگلہ میں بشام مینگورہ روڈ سے سات کلو میٹر اونچائی پر کاپربانڈہ نامی پر فضاء مقام کو سیاحتی نقطہ نظر سے ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ہر قسم کے جنگلات اور جنگلی حیات میں گھری دو مربع کلومیٹر رقبے پر محیط خوبصورت وادی ہے تاہم انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے یہ سیاحوں کی نظروں سے اوجھل تھی مگر اب اس وادی کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے ہدایات دی جا رہی ہیں

محکمہ مواصلات و تعمیرات اور محکمہ سیاحت دیگر تمام متعلقہ محکموں کی معاونت سے یہاں سڑکوں اور دیگر سہولیات پر مبنی ترقیاتی پیکج تیار کر کے اس پر فوری عمل درآمد یقینی بنائیں گے اور اسکی بدولت مقامی لوگوں کی سماجی اور معاشی حالت بھی بہتر بنے گی تعلیم اور صحت سے متعلق بعض مسائل پر وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ یہ دونوں شعبے ہماری اولین ترجیحات ہیں جن میں ایمرجنسی کا نفاذ بھی اسی بنیاد پر کیا گیا

تاکہ لوگوں کو یہ سہولیات ان کی دہلیز پر اور آسانی کے ساتھ مہیا ہوں ان میں شانگلہ جیسے دور آفتادہ اضلاع بھی سرفہرست ہیں صوبے کے میڈیکل و انجینئرنگ سمیت پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں شانگلہ کے طلباء کیلئے داخلوں کا کوٹہ مقرر کرنے سے متعلق مطالبے پر وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ کوٹہ سسٹم میرٹ کیلئے زہر قاتل ہے جو آگے جا کر اقرباء پروری اور کرپشن کے دروازے کھول دیتا ہے اسلئے صوبائی حکومت اس لعنت کی صریح خلاف ہے اور ہر سطح پر میرٹ، انصاف اور قانون کی بالادستی چاہتی ہے

تاکہ حقدار کو حق ملے اور کسی کی حق تلفی یا دل آزاری نہ ہونے پائے انہوں نے کہا کہ سی پیک کی بدولت شانگلہ جیسے پسماندہ علاقوں میں بھی معاشی خوشحالی کے دروازے کھل جائیں گے شانگلہ کے طلباء و طالبات کو بھی محکمہ اعلیٰ تعلیم کے تحت چینی زبان کے کورسز کیلئے چین کی یونیورسٹیوں میں بھیجا جائے گا انہوں نے شانگلہ میں تمام بنیادی سہولیات کی ویلج اور نیبرہوڈ کونسلز تک پھیلاؤ یقینی بنانے کیلئے متعلقہ حکام کو موقع پر احکامات جاری کئے

انہوں نے قبرستان سے متعلق مطالبے پر واضح کیا کہ مقامی لوگ اس مقصد کیلئے اراضی مہیا کریں تو صوبائی حکومت اسے ترقی دینے اور فنڈز مہیا کرنے میں بخل نہیں کریگی انہوں نے شاملات کی اراضی سے متعلق واضح کیا کہ اس بارے میں ابہام کو دور کرنا ضروری ہے شاملات کا واضح قانونی طریقہ کار ہونا چاہئے جس کے بعد اس کے ملکیتی حقوق اور ترقیاتی عمل سے متعلق فیصلے آسان بن جائیں گے

انہوں نے وفد کے دیگر مسائل کے مناسب ازالے کا یقین بھی دلایا اور بعض پر متعلقہ حکام کو ہدایات بھی جاری کیں۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ حکومت صوبے بھر میں شاملات اور متنازعہ اراضی کے مسائل جلد از جلد اور مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی خواہش مند ہے تاکہ اس سلسلے میں عوامی شکایات، مقدمات، مسائل اوردیگر قانونی وانتظامی پیچیدگیوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو اور عوام کو ہر سطح پر سہولیات ملتی ہوئی نظر آئیں

انہوں نے کہا کہ پٹوار سسٹم کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل ہونے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ سے یہ مشکلات ازخود حل ہوں گی۔ وہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں ضلع کوہاٹ کے علاقوں چمبائی،جرما اور کنڈیالی کی متنازعہ اراضی سے متعلق معاملات سلجھانے کیلئے منعقدہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جس میں کوہاٹ کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے علاوہ چیف سیکرٹری محمد اعظم خان، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو، ڈپٹی کمشنر کوہاٹ اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اراضی کے تنازعات بلاتاخیر حل ہونے چاہئیں کیونکہ تاخیر کی صورت میں یہ امن و امان کے مسائل کو جنم دینے، مقامی جھگڑوں اور خون خرابے کا باعث بھی بن جاتے ہیں جسکی صوبائی حکومت کبھی اجازت نہیں دیگی انہوں نے کہا کہ جرما، چمبا اور کنڈیالی کے اراضی مسائل کا حل بھی فوری ہونا چاہئے جس کیلئے علاقے کے ارکان اسمبلی اور مقامی انتظامیہ کو غیرجانبدار مگر موثر کردار ادا کرنا وقت کی ضرورت ہے

وزیراعلیٰ نے ان مسائل کے حل کیلئے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا اور اسے معاملے کی باریک بینی سے چھان بین کے بعد اپنی سفارشات جلد از جلد پیش کرنے کی ہدایت کی انہوں نے کہا کہ عوام بالخصوص غریب لوگوں کو ریلیف کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے جبکہ اراضی سے متعلق معاملات میں یہ بات بھی ناگزیر ہے کہ حقدار کو ان کا حق ملے اور اراضی غلط ہاتھوں یا کسی مافیا کے قبضہ میں نہ چلی جائے اس بارے میں حکومت کا طرز عمل انتہائی محتاط ہونا ضروری ہے

عوام کیلئے حکومت کا کردار ماں اور باپ کی طرح ہونا چاہئے تا ہم حکومت کسی غلط کام پر چشم پوشی یا خاموش تماشائی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے اس کی اصلاح اور بہتری کی پابند ہے .وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ، معاشی استحکام اور دیرپا ترقی کیلئے ملک کا پرسیپشن ٹھیک کرنے کیلئے شفافیت اور میرٹ بیسڈ فیصلہ سازی ناگزیر ہے۔ہمارے صوبے نے اس شفافیت کو دیر پا ترقی کی بنیادبنانے کیلئے رائٹ ٹوانفارمیشن کا قانون متعارف کرایا۔

یہ پہلا صوبہ ہے جس نے بین الاقوامی معیار پر تسلیم شدہ قانون کے ذریعے اچھی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی ، عوام کے حقوق کی واگزاری اور انصاف کے پورے نظام کو سہل بنانے کیلئے بنیاد فراہم کی ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ مختلف سرکاری اداروں میں 10575 لوگوں نے معلومات حاصل کرنے کیلئے درخواستیں دی ہیں جن میں سے 6788 شہریوں کو مطلوبہ معلومات فراہم کردی ہیں۔اسی طرح آر ٹی آئی کمیشن کو 3749 درخواستیں موصول ہوئیں ۔3229 درخواستوں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے

جبکہ مزید 520 شکایات پرعمل درآمد مختلف مراحل میں ہے جو سرکاری معلومات تک عوام کی رسائی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی بہتر ین کارکردگی کا مظہر ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعلیٰ ہاوس پشاور میں 107 ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔ متعلقہ صوبائی حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ پاکستان کے غیر شفاف حکمرانی کے نظام اور کرپٹ سیاسی قیادتوں کی وجہ سے بیرونی ممالک میں ملک کی مجموعی تصویر غلط جارہی ہے۔

جب اقتدار کے ایوانوں پر قابض سیاستدان اپنا سرمایہ پاکستان سے باہرانویسٹ کرنے کو ترجیح دیں تو بیرون ملک سے پاکستانی یا غیر ملکی اپنا سرمایہ یہاں لاکر کیوں انویسٹ کریں گے۔ہمارے اربوں پتی اورسیز پاکستانی واپس پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر اُنہیں ہماری قیادت پر اعتماد نہیں ہے۔ہمیں نظام کی شفافیت کے ذریعے اس اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔صوبائی حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار سال عوامی توقعات کے مطابق اپنے تبدیلی کے ایجنڈے پر پوری ایمانداری سے کام کیا ہے۔

اداروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق آزاد اور با اختیار بنا کر ایک فول پروف سسٹم کی بنیاد رکھی دی ہے۔زیادہ ترصوبائی محکموں میں آزاد اور بااختیار کمپنیاں اور اتھارٹیاں بنائی گئی ہیں جن میں نجی شعبہ کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے۔ہمارے اقداما ت کے مثبت اثرات نچلی سطح پر عوام تک پہنچ رہے ہیں۔تحریک انصاف کی طرف عوام وخواص کا بڑھتا ہوا رجحان ہماری کارکردگی کا ثبوت ہے۔عام تاثر یہی ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے آخری سال میں لوگ بھاگتے ہیں مگر صوبے کی تاریخ میں پہلی دفعہ تاریخ بدلنے جارہی ہے۔

صوبے میں کسی جماعت نے بھی متواتر دو بار حکومت نہیں بنائی مگر اس کے برعکس تحریک انصاف نے عوام کی شمولیت واضح کرتی ہے کہ عوام ماضی کی طرح اس حکومت سے نالاں نہیں ہیں کیونکہ اُنہیں سہولیات میسر ہیں اور وہ تبدیلی محسوس کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ شروع دن سے ہم نے کوشش کی ہے کہ اداروں کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرکے خود کار نظام وضع کیا جائے ۔اس مقصد کے لئے 200 کے قریب قوانین ، متعدد ترامیم عمل میں لائی گئیں۔

ہم نے کنفلکٹ آف انٹرسٹ قانون پاس کرکے سب سے پہلے خود کو بطور حکمران جوابدہ بنایا۔صوبائی محکموں میں رشوت کی حوصلہ شکنی کیلئے وسل بلوئر قانون پاس کیاجس کے تحت کرپشن کی مخبری کرنے والے کا نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے ریکور کی گئی رقم کا 30 فیصد بطور انعام مخبر کو دیا جاتا ہے۔خدمات تک رسائی کے قانون میں 16 کے قریب اہم خدمات شامل کی گئی ہیں۔متعلقہ حکام مقررہ وقت میں خدمات کی فراہم کے پابند ہیں۔بصورت دیگر ذمہ دار کو اپنی جیب سے درخواست گزار کو جرمانہ دینا پڑتا ہے۔

پرویز خٹک نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہمارا بلدیاتی نظام کا دیگر صوبوں سے موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ہم نے نہ صرف اختیارات دیئے بلکہ صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد لوکل گورنمنٹ کو دیا۔ہم تاریخ میں پہلی بار اختیارات اور وسائل کو ویلج کونسل تک لے گئے تاکہ ہر گلی اور ہر کونے میں اس کے اثرات پہنچ سکیں۔44 ہزار کے قریب منتخب عوامی نمائندے ہیں۔ اس قانون کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل کا مقامی سطح پر حل آسان ہوا ہے اور بہتری آرہی ہے۔

خیبرپختونخوا احتساب کمیشن پر اعتراضات کو وزیراعلیٰ بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہاکہ کمشنرز اور ڈی جی میں اختلافات کی وجہ سے ڈی جی نے خود استعفیٰ دیا تھا۔ہم نے ڈی جی کی تقرری کیلئے سکروٹنی کمیٹی تشکیل دی ۔اس مجموعی عمل میں مزید شفافیت لانے کیلئے اب ڈی جی کی تعیناتی کا اختیار ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو دے دیا ہے۔عدالت میں ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔حکومت کی طرف سے ڈی جی کی مستقل تعیناتی نے کوئی رکاوٹ، تاخیر یا مداخلت نہیں ہے۔حکومتی مداخلت سے متعلق سوچ بالکل غلط ہے۔

وزیراعلیٰ نے شعبہ پولیس میں اصلاحات کے حوالے سے کہاکہ اُن کی حکومت نے صوبے میں پہلی بار انٹیلی جنس ادارہ سی ٹی ڈی قائم کیااور پولیس کی ٹریننگ کیلئے سکول بنائے۔پہلے اڑھائی سال بغیر قانون سازی کے تمام اختیارات پولیس کے حوالے کئے۔اب قانون پاس کرکے محکمہ پولیس کو مکمل آزاد اور بااختیار فورس بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ان اصلاحات سے پہلے دن میں 30 سے زائد شکایات موصول ہوتی تھیں مگر اب سال بھر میں بھی 30 شکایات نہیں آتیں۔

وزیراعلیٰ نے دیگر صوبوں کو بھی تجویز دی کہ پولیس کو با اختیار بنائیں کیونکہ یہ ہماری غلام نہیں ہے۔پولیس نے ہمیشہ بڑی قربانیاں دی ہیں اور خطرات کے خلاف فرنٹ لائن پر کھڑی رہتی ہے۔پرویز خٹک نے کہاکہ تعلیم اور صحت کو ہر حکومت نے اپنی پہلی ترجیح کہا ہے مگر عملی طور پر ان شعبوں میں خدمات پر توجہ نہیں دی گئی ۔صوبائی حکومت نے حقیقی معنوں میں تعلیم اور صحت کو ترجیح دی اور غریب عوام کو معیاری سہولیات کی فراہمی کیلئے اربوں روپے خرچ کئے۔

اس وقت صوبے کے سکولوں اور ہسپتالوں میں سو فیصد عملہ اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔غریب کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا۔ پچھلے سال 14 لاکھ مستحق خاندانوں کارڈ فراہم کئے گئے ۔ اس سال مزید 10 لاکھ کو کارڈ فراہم کریں گے ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کیلئے بلین ٹری سونامی کے تحت ایک ارب درخت اُگائے گئے۔60 فیصد خود لگائے جبکہ 40 فیصد قدرتی اُگاؤ ممکن بنایا گیا۔ونڈ فال قانون کے نام پر جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ بند کیااور سائنسی طریقے سے کٹائی کا قانون لارہے ہیں۔

موضوعات:



کالم



صدقہ‘ عاجزی اور رحم


عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور…

شرطوں کی نذر ہوتے بچے

شاہ محمد کی عمر صرف گیارہ سال تھی‘ وہ کراچی کے…

یونیورسٹیوں کی کیا ضرروت ہے؟

پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ…

کھوپڑیوں کے مینار

1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…