نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک)مشکلات میں گھری معیشت والے ملک پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی شاہ خرچیاں، نیو یارک کے سب سے بڑے اور مہنگے ہوٹل فورسیزن میں قیام جہاں صرف ایک رات کا کرایہ 3-ہزار ڈالر بتایا جاتا ہے، مہنگی اور لگژری لیموزین کاریں ہوٹل کے دروازے پر لائن میں کھڑی کر دی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے
نو منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ان دنوں امریکہ میں موجود ہیں جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے دو روز قبل لندن سے نیویارک پہنچے ہیں۔ مشکلات میں گھر معیشت والے ملک پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی نیویارک میں شاہ خرچیوں کی تفصیلات سامنے آنے لگ گئی ہیں جس میں بتایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے نیویارک کے سب سے بڑے اور مہنگے ہوٹل فورسیزن میں قیام کا بندوبست کیا گیا ہے جس میںایک بڑا صدارتی سویٹ ان کے لئے بک کیا گیا ہے جس کا ایک رات کا کرایہ 30ہزار ڈالر بتایا جاتا ہے۔ مہنگی اورلگژری لیموزین کاریں بھی بڑی تعداد میں حاصل کی گئی ہیں جو فور سیزن اور روز ویلٹ کے سامنے 24گھنٹے باوردی ڈرائیوروں سمیت ہمہ وقت موجود ہونگی اس کے علاوہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے بھی ان کی ملاقات متوقع ہے، ہنری کسنجر مختصر سی ملاقات کیلئے بھی ہزاروں ڈالر فیس لیتے ہیں۔پاکستانی وفد کے لئے صدارتی سویٹ کے علاوہ دیگر لگژری سویٹس بھی حاصل کئے گئے ہیں جن کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے۔واضح رہے کہ ہوٹل میں قیام کے دوران ویٹرز کو سربراہان مملکت کی جانب سے ہزاروں ڈالرز ٹپ بھی دی جاتی ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کو بدتہذہب اور غریب تصور کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ عرب کے شیوخ اور رئیس اسی ہوٹل میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں صرف سابق ایرانی صدر احمدی نژاد ایک ایسے سربراہان مملکت تھے جنہوں نے اقوام متحدہ اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ پہنچنے پر ایک عام سے ہوٹل کا انتخاب کیا جس کا کرایہ چند ڈالر تھا اور ہوٹل انتظامیہ کو ہدایت کر کے کمرے سے نرم گدوں پر مشتمل بیڈ بھی اٹھوا دیا تھا
اور قالین پر لیٹ کر رات بسر کی تھی جس پر ان کے ملک کے عوام نے ان کو بہت سراہا تھا اور سوشل میڈیا پر خبر آنے پر سوشل میڈیا صارفین نے سربراہان مملکت کے شاہانہ طرز عمل کو تنقید اور احمدی نژاد کی سادگی کو بہت سراہا تھا۔ اگر وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے امریکہ کے دورے کے اخراجات کو جمع کیا جائے تو اس کا تخمینہ کئی لاکھ ڈالر تک پہنچ جاتا ہے
جو کہ پاکستان جیسے ملک جس کی معیشت اس وقت مشکلات میں گھری ہوئی کو زیب نہیں دیتا۔