رحیم یار (آن لائن) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی دراصل امریکہ کی جنوبی ایشیاء اور افغانستان بارے اس نئی پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کر کے دراصل دنیا بھر میں خاص طور پر پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنا چاہ رہا ہے تاکہ وہ دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھ سکے ۔
منگل کے روز رحیم یار خان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا اصل ’’نشانہ‘‘ پاکستان ہے کیونکہ امریکہ کو سی پیک کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ دہشتگردی کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہ رہا ہے لیکن اس موقع پر ہمیں سوچ سمجھ کر اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ پاکستان کسی بھی طرح اندرونی و بیرونی طور پر کمزور نہ ہو سکے ۔انہوں نے کہا کہ اگر 2001ء میں ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیتے اور اعصابی طور پر جنگ نہ ہارتے تو آج دنیا میں امریکہ کا اثرو رسوخ بہت کم ہو چکا ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے بعض سیاستدانوں نے امریکی اتحاد میں شامل ہونے کو صلح حدیبیہ سے تشبیح دی تھی جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ چین کی شکل میں کسی بھی ملک نے امریکہ کو للکارا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے جس کے باعث وہ مختلف ممالک کے درمیان جنگ چھیڑ کر اپنا اسلحہ فروخت کر کے معاشی طور پر مضبوط ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کافی عرصہ قبل کے جی بی جو افغان پالیسی روس کیلئے ترتیب دے رہا تھا آج وہی افغان پالیسیاں پینٹاگون صدر ٹرمپ کیلئے ترتیب دے رہا ہے اس لیے توقع ہے کہ صدر ٹرمپ ’’امریکی گورباچوف‘‘ ثابت ہو گا ۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افغانستان بارے نئی پالیسی کے بعد پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت جس طرح ایک پیج پر اکٹھی ہوئی ہے اس سے امریکہ کو ایک واضح پیغام گیا ہے جس سے توقع ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی امریکی کوششیں ناکام ثابت ہونگی ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ ایران کو سعودی عرب سے ،پاکستان کو افغانستان سے اور انڈیا کو چین سے لڑانے کی سازش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ اسلحہ فروخت کر سکے ۔
اس موقع پر انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ نیب میں اپنے مقدمات ختم کرنے کیلئے آصف علی زرداری کی ’’شاگردی‘‘ اختیار کریں کیونکہ آصف علی زرداری اپنی بہترین حکمت عملی سے نیب سے پاک ہو چکے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی کی خیبرپختونخواہ کی حکومت سے علیحدگی کے واضح اعلان کے بعد ہی وہ کے پی کے میں حکومت سازی بارے فیصلہ کریں گے ۔اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ وہ آئین کی دفعات 62اور 63 کے مکمل خاتمے کی حمایت نہیں کرتے
تاہم ان دفعات میں بعض سقم ختم کرنے کی حمایت کریں گے جس میں خاص طور پر نااہلی کی مدت کا تعین شامل ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ جے یو آئی لسانی اور علاقائیت کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام کی حمایت نہیں کرتے تاہم انتظامی بنیادوں پر وہ نئے صوبوں کے قیام کے حامی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں ان کی جماعت بھرپور حصہ لے گی
اور ایم ایم اے کی بحالی بارے انہوں نے ایک کمیٹی قائم کر رکھی ہے جس کی روشنی میں ایم ایم اے کی بحالی بارے کوئی فیصلہ کیا جائے گا ۔اس موقع پر جے یو آئی کے مرکزی نائب امیر مولانا محمد یوسف ،ضلعی امیر مولانا عبدالرؤف ربانی ،مولانا رشید احمد لدھیانوی ،مولانا فتح اللہ و دیگر بھی موجود تھے ۔بعدازاں مولانا فضل الرحمان معروف روحانی شخصیت مولانا مولانا مسعود دین پوری سے ان کے صاحبزادے کی وفات پر تعزیت کیلئے دین پور شریف روانہ ہو گئے