چنیوٹ(مانیٹرنگ ڈیسک) چنیوٹ کے علاقے موضع آسیاں کی مسجد میں گزشتہ روز تبلیغی جماعت کے ایک رکن کے قتل کی خبر سامنے آنے کے بعد سے سوشل میڈیا سمیت مختلف حلقوں میں ناصرف مسلک کی بنیاد پر تقسیم کے مضمرات بلکہ توہین مذہب کے حوالے سے بھی نئی بحث چھڑ گئی ہے۔یاد رہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی یہ تبلیغی جماعت گزشتہ اتوار کو سیالکوٹ سے ہوتی ہوئی اس مسجد میں پہنچی تھی۔قتل ہونے
والے ولی الرحمان اور ان کے مضروب ساتھی عبداللہ سمیت اس جماعت میں شامل زیادہ تر ارکان کا تعلق کراچی کے مختلف علاقوں سے ہے جبکہ ملزم محمد اکرام موضع آسیاں کا رہائشی ہے۔پولیس کو درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے اتوار کی شام کو مسجد میں آ کر جماعت میں شامل افراد کے ساتھ بحث و مباحثہ شروع کیا کہ تم لوگ گستاخ رسولؐ اور منکر ہو۔بعدازاں اس نے پیر اور منگل کی درمیانی شب دوبارہ مسجد میں آ کر یہی تکرار شروع کر دی اور جب سب لوگ سو گئے تو کسی کے وار کر کے ولی الرحمان کو قتل اور عبداللہ کو شدید زخمی کر دیا۔اس دوران لوگ موقعے پر اکٹھے ہو گئے اور ملزم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔پولیس کے مطابق مقتول کی نعش کو تدفین کے لئے کراچی بھیج دیا گیا ہے جبکہ مضروب شخص الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں زیر علاج ہے۔موضع آسیاں کے رہائشی اور یونین کونسل 14 سے چیئرمین کے سابق امیدوار غلام علی نے سجاگ کو بتایا کہ اس رات تبلیغی جماعت کے ایک آدمی نے سپیکر پر تین بار اعلان کیا کہ گاؤں کے ایک نوجوان نے ان کے ایک ساتھی کو قتل کر دیا ہے۔ جس پر دیگر گاؤں والوں کی طرح میں بھی بھاگم بھاگ مسجد پہنچ گیا۔انہوں نے بتایا کہ ملزم محمد اکرام اتوار کے دن سے ہی جماعت والوں کے ساتھ ساتھ تھا۔اسی گاؤں میں واقع ایک اور مسجد کے امام مولوی اللہ یار کے مطابق اکرام نے ساتھ والے
گاؤں کے مولوی محمد افضل سے قرآن حفظ کیا تھا۔حفظ کے بعد وہ تین سال تک اپنے استاد کے ساتھ رہا اور بعد میں اس نے سرگودھا کے علاقے علی ٹاؤن میں واقع مدنی مرکز فیضان مدینہ میں داخلہ لے لیا۔انہوں نے بتایا کہ اکرام گزشتہ ہفتے چھٹی پر گھر آیا تھا اور اس نے عیدالضحیٰ کے بعد واپس جانا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اکرام گاؤں کی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بجائے الگ عبادت کرتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ مذہب
کے متعلق امام مسجد سے زیادہ علم رکھتا ہے۔گاؤں کے نمبردار چوہدری محمد یار کہتے ہیں کہ اکرام جس مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا وہاں بریلوی مسلک کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ تبلیغی جماعت کے زیادہ تر لوگ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں فرقوں میں رسولؐ کی ذات کے بشر یا نوری ہونے سے متعلق جو مختلف رائے پائی جاتی ہے شاید یہ واقعہ اس پر ہونے والی بحث و تکرار کا
شاخسانہ ہے۔مقتول ولی الرحمنٰ کے ایک ساتھی محمد حفیظ نے بتایا کہ اس رات اکرام ہمارے ساتھ مسجد میں ہی موجود تھا کہ اسے کسی کا فون آیا اور وہ بات کرتے ہوئے مسجد سے باہر چلا گیا۔ اس کے بعد وہ کب واپس آیا کسی کو پتہ نہیں چلا۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں کسی کے مسلک سے متعلق بحث مباحثہ کرنے سے گریز کا درس دیا جاتا ہے اور وہ صرف اسلام کی تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مستنصر فیروز کہتے ہیں کہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف مدارس میں مختلف مسالک کے علماء جس طریقے سے تعلیم دے رہے ہیں اس سے فرقہ وارانہ منافرت بڑھ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے علماء نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو اس طرح کے مزید واقعات ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔مذہبی شدت پسندی اور فرقہ وارانہ فسادات نے پہلے ہی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس لئے مدارس اور تعلیمی اداروں میں باہمی
بھائی چارے اور انسانیت کے احترام کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔اس بارے میں لوگوں کی عمومی رائے یہ ہے کہ امن عامہ کو قائم رکھنے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے گرفتار ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل کی نشاندہی اور تدارک بھی ضروری ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارے معاشرے میں شیعہ سنی اختلاف کے بعد مختلف مسالک کے مابین تقسیم مزید گہری ہونے کا امکان ہے۔واقعے کی ایف آئی آر نیچے ملاحظہ کریں!