اسلام آباد(آئی این پی) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان (کل) اتوار کو پریس کانفرنس کر کے اپنے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں ، قیاس آرائیوں اور پارٹی کیلئے قربانیوں پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے ، چوہدری نثار کو سابق صدر غلام اسحاق خان اور پرویز مشرف سمیت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران اہم قسم کی پیشکشیں ہوتی رہیں تاہم انہوں نے ہمیشہ وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کا ساتھ دیا ،
اب بھی وہ پارٹی کے ساتھ ہیں تاہم بعض کابینہ اراکین ان کیخلاف سخت زبان استعمال کر رہے ہیں جس پر وہ سخت رنجیدہ ہیں اور و زیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے ساتھ اختلافات کے باعث وزیر اعظم بننے کا پیغام بھجوایا تھا اور یہ پیغام اس وقت کے بیورو کریٹ روئیداد خان چوہدری نثار خان کے پاس لے کر آئے تھے تاہم چوہدری نثار نے غلام اسحاق خان کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکارکر دیا تھا ۔ پرویز مشرف کے دور میں جب چوہدری نثار اپنے گھر میں نظر بند تھے تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل محمود پرویز مشرف کا پیغام لے کر چوہدری نثار کے پاس آئے اور انہیں پیشکش کی کہ پرویز مشرف ان سے ملاقات کر ناچاہتے ہیں اور اہم ذمہ داریاں سونپنا چاہتے ہیں تاہم اس وقت بھی چوہدری نثار نے پیشکش ٹھکرا دی اور پرویز مشرف سے بھی ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔2014ء میں دھرنوں کے دوران بھی چوہدری نثار علی خان کومختلف قسم کے پیغامات موصول ہوتے رہے اور پیشکشیں کی جاتی رہیں کہ وہ آگے بڑھیں تاہم وزیر داخلہ نے ان پیشکشوں کو قبول کیا نہ خفیہ پیغاما ت کا جواب دیا بلکہ اپنی وزارت کی ذمہ داریا ں پوری کرتے ہوئے دھرنوں کوناکام بنایا اور 30 اگست کی رات جب دھرنوں کے شرکاء وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صد رکی طرف بڑھنے کی تیاریاں کر رہے تھے تو چوہدری نثار پنجاب ہاؤس سے اٹھ کر وزیر اعظم ہاؤس چلے گئے،
جہاں انہوں نے و زیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور ملٹری سیکرٹری کو بلایا اور دھرنوں کو ناکام بنانے کے حوالے سے خود پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی قیادت کرنے کا فیصلہ کیا جب دھرنو ں کے شرکاء نے پیش قدمی کی تو چوہدری نثار نے انہیں طاقت کے زور پر روکنے کا حکم جاری کیا اور تمام صورتحال کو خود کنٹرول کرتے رہے۔عمران خان او رطاہر القادری کے عزائم کو ناکام بنانے میں مرکزی کردار چوہدری نثار کا ہی رہا ہے۔
جب دھرنے کے شرکاء پیش قدمی کر رہے تھے تو ملک کی اہم شخصیات نے چوہدری نثار کے اسٹاف کو ٹیلیفون کے ذریعے پیغامات دئیے اور کہا کہ وزیر داخلہ کو فور ی طور پر نکال لیا جائے لیکن اس کے باوجود چوہدری نثار پولیس فورس کے ساتھ کھڑے رہے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری نثار اور وزیر اعظم کے درمیان اب بھی کوئی دوریاں نہیں تاہم پانامہ لیکس کے معاملہ پر ایک مشاورتی اجلاس میں کابینہ کے چند ارکان نے چوہدری نثار کے بارے میں سخت گفتگو کی
لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے ان وزراء کو گفتگو سے روکا نہ اس کا نوٹس لیا جب یہ بات وزیر داخلہ کو معلوم ہوئی تو وہ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے ۔ ذرائع کے مطابق چوہدری نثار موجودہ صورتحال میں ٹکراؤ کی پالیسی کے مخالف ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہوں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے جو خطاب کیا چوہدری نثار نے ا سکی بھی مخالفت کی تھی
لیکن وزیر اعظم نے چوہدری نثار کے مشوروں کو نہیں مانا۔ چوہدری نثار نے دھرنا ٹو جو اسلام آباد لاک ڈاؤن کا پلان تھا اسے بھی ناکام بنایا جس پر وزیر اعظم نے ان کی تعریف کی اب وزیر داخلہ چوہدری نثار اتوار کو جو پریس کانفرنس کریں گے اس میں وہ اپنا موقف بیان کریں گے اور پارٹی اور وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق اور وفاداریوں پر روشنی ڈالیں گے۔