ایک جعلی نوٹ بنانے والے سے غلطی سے پندرہ سو روپے کا نوٹ بن گیا‘ اس نے سوچا میں یہ نوٹ ضائع کرنے کی بجائے اسے کسی جگہ استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہوں اس نے ایک سادہ سا دوکان دارتلاش کیا‘ اس سے سو روپے کا سودا لیا اور اسے پندرہ سو روپے کا نوٹ پکڑا دیا‘ دوکاندار نے وہ جعلی نوٹ دراز میں رکھا اور اسے سات سو سات روپے کے دو نوٹ پکڑادیئے‘ پانامہ کیس میں اب تک یہی ہو رہا ہے‘
حکومت عدالت کو سادہ سمجھ کر ثبوتوں کے انبار لگا دیتی ہے۔۔لیکن عدالت جواب میں انہیں سات سات سو روپے کے نوٹ پکڑاکر حیران کر دیتی ہے‘ کل تک خواجہ حارث نے حکومت کو کیس جتوادیا تھا‘ان کے اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ پانامہ میں نواز شریف کا نام نہیں‘ جے آئی ٹی نے نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں دیا‘ان پرکرپشن کا براہ راست کوئی الزام نہیں لگایا گیا لہٰذا آپ انہیں کیسے سزا دے سکتے ہیں لیکن آج کا دن شریف فیملی پر بھاری ثابت ہوا‘ عدالت کیبلری فونٹ سے بھی مطمئن نہیں ہوئی‘ مہریں بھی جعلی نکل آئیں‘ نوٹری پبلک کی تاریخ بھی چھٹی کا دن نکلی اور نوٹری کے سپیلنگز بھی غلط نکلے چنانچہ سلمان اکرم راجہ بیک فٹ پر چلے گئے‘ عدالت نے صاف کہہ اگر بچے فلیٹس کی ملکیت ثابت نہ کر سکے تو ذمہ داری وزیراعظم پر شفٹ ہو جائے گی‘ یہ عدالت کی طرف سے آج کی تاریخ تک واضح اورسیدھا پیغام ہے‘ آج جعلی کاغذات جمع کرانے والوں کو سات سال قید کا اشارہ بھی دے دیا گیا لہٰذا آج کا دن حکومت پر بہت بھاری تھا‘ کل کا دن بھی بہت اہم ہے‘ کل وزیراعظم کے بچوں کے وکیل اپنے دلائل مکمل کریں گے اوراس کے بعد عدالت یہ فیصلہ کرے گی یہ کیس ٹرائل کیلئے نیب بھجوایا جائے‘ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ خودکرے یا پھر عدالت وزیراعظم کو فیصلے تک عہدے سے ہٹا کر کیس ٹرائل کیلئے نیب بھجوا دے‘ امکانات کیا ہیں‘اس کا فیصلہ کل تک ہوگا‘
یہ ایک طرف کی صورتحال ہے جبکہ دوسری طرف آج بھی وزیراعظم اور عمران خان کے درمیان گولہ باری جاری رہی،کوئی نہیں مانے گا‘ کیا یہ دھمکی ہے یا بے چارگی ہے اور کیا واقعی وزیراعظم کا استحصال ہو رہا ہے؟