اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مکانات و تعمیرات کے اجلاس میں وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی پھٹ پڑے اور کہا کہ دو روپے خرچ نہیں ہوئے اور 34ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگا دیا‘ تھلیاں ہاؤسنگ سکیم کے لئے زمینوں کے حصول کی کوشش کررہے ہیں اور عام لوگوں سے زمینیں لی جارہی ہیں‘ وزارت کو ہدایت کی ہے کہ جہاں سے زمین خریدنی ہے وہاں کا خسرہ نمبر مخفی رکھا جائے‘
جب کوئی سکیم مکمل ہو تو اس کا آڈٹ کیا جاتا ہے مگر یہاں ایسے منصوبے کا روزانہ کی بنیاد پر آڈٹ ہورہا ہے جو ابھی تک شروع نہیں ہوا اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو سوچنا چاہئے‘ میڈیا میں بھی انہی خبروں کو اچھالا جاتا ہے‘ کمیٹی اجلاسوں میں وزارت کے حکام کو سوالات کے جوابات دینے کے لئے پانچ منٹ نہیں دیئے جاتے اور ممبر کمیٹی تین تین گھنٹے تک بولتے رہتے ہیں‘ وزارت کے تمام معاملات کو تمام کمیٹیوں کے سامنے رکھا ہے کوئی بھی چیز کبھی نہیں چھپائی‘ اگر کسی ممبر کمیٹی کو اعتراض ہو تو اس کا جواب دیا جاتا ہے‘ بعض لوگ تھلیاں ہاؤسنگ سکیم کو ناکام کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ کمیٹی نے تھلیاں ہاؤسنگ سکیم کے حوالے سے کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کی ہدایت کردی‘ ممبر کمیٹی غلام سرور خان نے وزارت پر الزام لگایا کہ وزارت اپنے بنائے ہوئے قوانین اور قوائد پر عمل درآمد نہیں کررہی جس کی وجہ سے منصوبے تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مکانات و تعمیرات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی محمد اکرم انصاری کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت ہاؤسنگ کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پلاننگ کمیشن اور وزارت قانون کے ساتھ مل کر تمام معاملات کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بعض سرکاری محکموں کی طرف سے پلاٹ کے حصول کے لئے درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ نفع اور نقصان کی بنیاد پر ڈویلپرز سے اراضی حاصل کی جارہی ہے۔
کمیٹی رکن غلام سرور خان نے کہا کہ وزارت نے اپنے ای او آئیز خود بنائے ہیں مگر اس کی خلاف ورزی بھی خود کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض موضع جات میں اراضی حاصل کی گئی ہے اور ایسے لوگوں سے بھی اراضی حاصل کی گئی ہے جن کے نام پر زمینیں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر پی اے سی نے بھی ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ میں بھی تھلیاں ہاؤسنگ سکیم کے معاملے پر گفتگو ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم کسی بے ضابطگی کی نشاندہی کرتے ہیں تو کمیٹی کی کارروائی میں ہمارے نام سے اس بے ضابطگی کو رپورٹ کرنا چاہئے مگر افسوس ایسا نہیں کیا جاتا۔ وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمیشہ سروے کے بعد اراضی کا حصول اور انتخاب ہوتا ہے ابھی تک ہم نے اراضی کا انتخاب نہیں کیا۔ ایک انچ زمین بھی خریدی نہیں گئی مراحل ابھی ابتدائی دور میں ہیں اور اس معاملے پر کابینہ کے اجلاس میں گفتگو ہوئی اور پھر کابینہ کی ذیلی کمیٹی اس معاملے پر قائم کی گئی۔
غلام سرور خان نے کہا کہ چھبیس ستمبر 2016کو اراضی کا ایگریمنٹ ہوا اور اب تک 14سو کنال اراضی کے انتقالات ہوچکے ہیں۔ کمیٹی رکن اقبال محمد علی نے کہا کہ بہارہ کہو ہاؤسنگ سکیم میں ہمیں تجربہ ہوچکا ہے اور اس میں بھی زمینوں کی ہیئت کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا کیس آج بھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ وزارت کے حکام نے اس بابت بتایا کہ وزارت کوئی فائنانشل رسک نہیں لینا چاہتی اور زمین کے مالک کے بغیر کسی بھی ایم او یو پر دستخط نہیں ہوں گے۔
ہم نے بھی بہارہ کہو اور ایل ڈی ایم اے والے مسائل سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وفاقی وزیر ہاؤسنگ اکرم خان درانی نے کہا کہ ممبران کمیٹی میں ہماری بات نہیں سنتے اگر یہی ہوا تو میں دوبارہ اجلاس میں نہیں آؤں گا۔ کابینہ کی ذیلی کمیٹی میں کئی فیصلے کئے گئے تھے ان میں جو سب سے بڑا فیصلہ تھا کہ ایک کنال سے زائد کا پلاٹ کسی کو بھی نہیں دیا جائے گا زمینوں کی جانچ پڑتال کے لئے سٹیٹ بنک کی جانب سے جانچ پڑتال افسر لگایا گیا اور اراضی کے نرخ بھی اسی افسر نے مقرر کئے۔ پی اے سی میں اس مسئلے کو لے جایا گیا۔
وزارت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں کے پیسے وزارت کے اکاؤنٹ میں جمع ہیں ان پر حاصل ہونے والا منافع ان لوگوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الاٹمنٹ لیٹر کوئی پراپرٹی ڈیلر نہیں جاری کریگا۔ وزارت کی طرف سے ہی جاری کیا جائے گا۔ آج تک کسی حکومت نے اس طرح کا کام نہیں کیا کہ ملازمین کی جس میں بہتری ہو۔
انہوں نے کہا کہ وزارت کی کوئی بات کبھی نہیں چھپائی میں نے پی اے سی سے بھی یہی کہا تھا کہ مجھے پی اے سی میں پیش ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ میں تمام ابہام دور کرسکوں مگر مجھے چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ سکیم مکمل نہ ہو اور حکومت چلی جائے۔ کچھ لوگ ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔ ہم زمینیں ٹکڑوں میں خریدتے ہیں کیونکہ ہمیں کسی ایک مالک کی بیس ہزار کنال اراضی تو نہیں مل سکتی اسی لئے وقت لگتا ہے۔
محکمے کو ہدایت بھی کی ہے کہ جہاں زمین خرید رہے ہیں وہاں کا خسرہ نمبر مخفی رکھا جائے۔ انہوں نے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بعض اخبارات میں 34ارب روپے کرپشن کی خبر جاری ہوئی ان اخبارات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرینگے۔ کمیٹی چیئرمین محمد اکرم انصاری نے کہا کہ وزارت کو کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا چاہئے اور کمیٹی سمیت کمیٹی ممبران کی رائے کو بھی فوقیت دینی چاہئے تاکہ ان کے خدشات دور ہوں۔
پی اے سی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ کی رپورٹ بھی اگلے اجلاس میں پیش کی جائے تاکہ ممبران کو ان کے فیصلوں سے آگاہ کیا جاسکے۔ کمیٹی نے ایم ڈی پی ایچ اے کی کارکردگی کو سراہا جنہوں نے کچلاک بلوچستان میں غیر قانونی قبضہ واگزار کرایا۔ کمیٹی نے ہدایت بھی کی کہ اس قبضہ کو برقرار رکھا جائے تاکہ دوبارہ کوئی غیر قانونی طور پر قابض نہ ہوسکے۔