اسلام آباد(جاوید چوہدری )بنگال کے حکمران سراج الدولہ کے پاس سب کچھ تھا‘ فوج تھی‘ فرنچ جنرلز تھے‘ گولہ بارود تھا‘ رائفلیں تھیں‘ خزانہ تھا اور جذبہ تھا لیکن سراج الدولہاس کے باوجود پلاسی کی جنگ ہار گیا‘ مورخین نے جب اس کی شکست کی وجوہات تلاش کیں تو صرف ایک وجہ سامنے آئی‘ سراج الدولہ لوگوں کوبلاوجہ معاف کر دیتا تھا‘ یہ عادت عام انسانوں کیلئے اچھی ہوتی ہےلیکن یہ اگر حکمرانوں اور ریاستوں میں ہو تو وہ تباہ ہو جاتی ہیں‘
سراج الدولہ نے اس عادت کا نقصان اٹھایا اور ہم بھی اب اس عادت کے خسارے جمع کر رہے ہیں‘ ہم من حیث القوم غلطی کرنے والوں کو سزا نہیں دیتے‘ یہ ہماری قومی عادت ہے‘ آپ آج کی مثال لے لیجئے‘ ہماری ٹیم آج انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کلبھوشن یادیوکے مقدمے کا پہلا مرحلہ ہار گئی‘ عالمی عدالت نے انڈیا کا موقف مان لیا اور پاکستان کو کل بھوشن یادیو کو پھانسی دینے سے روک دیا‘ یہ ہماری بہت بڑی سفارتی شکست ہے‘ قوم کا خیال ہےاس شکست کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیےلیکن میں سمجھتا ہوں یہ توقع غلط ہے‘ ہم معاف کر دینے والی قوم ہیں‘ ہم نے تو 1971ء کے سانحے کے ذمہ داروں کو معاف کر دیا تھا‘ یہ تو ایک مقدمے کی شکست ہے‘ آپ دیکھ لیجئے گا ہم نہ صرف اس ہار کو بھی چپ چاپ پی جائیں گے بلکہ ہم وکیلوں کو لاکھوں ڈالر فیس بھی ادا کریں گے‘ یہ ہمارا ٹریک ریکارڈ ہے اور ہم اس ریکارڈ کی توہین نہیں ہونے دیں گے۔ آئی سی جے کے فیصلے کے بعد دو آراء سامنے آ رہی ہیں‘ پہلی رائے ہمیں اتمام حجت کیلئے یادیو کو قونصل رسائی دے دینی چاہیے تھی تاکہ انڈیا اعتراض نہ کر سکتا‘ ہم نے اگراسے پھانسی کی سزا سنائی تھی تو ہمیں اسے فوراً پھانسی پر بھی چڑھا دینا چاہیے تھا تاکہ انڈیا کو عالمی عدالت جانے کا موقع نہ ملتا اور جب ہماے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ ہم عالمی عدالت نہ جاتے تو پھر ہم کیوں گئے‘
یہ تینوں نقطے ہماری نالائقی کو ظاہر کرتے ہیں‘ دوسری رائے پاکستان نے جان بوجھ کر عالمی عدالت کا کارڈ کھیلا‘ اس کارڈ سے دو چیزیں ثابت ہو گئیں یادیو بھارتی باشندہ ہے اور جاسوس ہے‘ پاکستان اب پوری دنیا کے سامنے جب اسے دہشت گرد اور جاسوس ثابت کرے گا تو یہ ایشو انٹرنیشنل میڈیا میں آئے گا اور بھارت کا اصلی چہرہ سامنے آ جائے گا‘ ہم اگر اس رائے کو مان لیں تو یہ مقدمہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے‘ کون سی رائے درست ہے‘ کیس کا مستقبل کیا ہے۔