لاہور(آئی این پی)صوبائی وزیر برائے سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر خواجہ سلمان رفیق نے کہا ہے کہ تھیلیسیما کی مو ثر روک تھام کے لئے عوام میں ہیلتھ ایجوکیشن کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ شادی سے پہلے تھیلیسمیاٹیسٹ لازمی قراد دینے کے لئے قانون سازی ضروری ہے ،حکومت نے اس سلسلہ میں مسودہ قانون تیار کر کے محکمہ قانون کو ارسال کر دیا ہے اور اس پر اتفاق رائے کے بعد قاانون سازی کا عمل شروع کر دیا جائے گا ،
خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ بہت سے ممالک نے قانون بنا کر تھیلیسمیا کے کیسز کویا تو مکمل طو رپر زیرو کر دیا ہے یا ان کی شرح میں 90 فیصد تک کمی آ گئی ہے ۔انہوں نے یہ بات پنجاب تھیلیسمیا پریونشن اینڈ کنٹرول پروگرام کے زیر اہتمام ایف جے ایم یو میں میڈیا ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ پرووائس چانسلر ایف جے ایم یو پروفیسر عامر زمان خان ، رجسٹرار پروفیسر شیریں خاور ایم ایس ڈاکٹر نعمان مطلوب ،پی ٹی پی سی پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شبنم بشیر اور برطانیہ سے آئے ہوئے ماہرین ڈاکٹر مشتاق اور ڈاکٹر شہناز نے بھی شرکت کی ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شبنم بشیر نے بتایا کہ پی ٹی پی سی کے تحت ڈی این اے لیبارٹری کام کر رہی ہے اور پیدائش سے پہلے تشخیصی ٹیسٹ کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پورے ملک بلکہ افغانستان سے بھی کیسز یہاں آ رہے ہیں۔برتھ تھیلیسمیا کو کنٹرول کرنا ضروری ہے ۔انہوں نے بتایا کہ تھیلسیمیا پروگرام اعلی تعلیم و تربیت کے مواقع بھی پیدا کر رہا ہے اور سکولوں و کالجوں میں سیمینار اور آگاہی پروگرام بھی کئے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ 3128 خاندانوں کے 84,655 افراد کے ٹیسٹ کئے گئے ہیں اور 536 میجر تھیلیسیمیا کے کیسز کی حاملہ خواتین میں نشاندہی کی گئی ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں60000 تھیلیسیمیا کے کیسر رجسٹرڈ ہیں
اور ایک بچے پر سالانہ 3 لاکھ روپے خرچ آتا ہے جبکہ مریض کو انتہائی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر شبنم کا کہنا تھا کہ جدید سہولیات سے تھیلیسمیا کے مریض کی عمر میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن اس سے نئے کیسز میں اضافہ بھی بڑھ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اصل ہدف تھیلیسمیا کے ساتھ پیدائش کو روکنا ہے اور عام لوگوں کو اس بارے میں علم نہیں ہے اور آپس کی شادیاں بغیر تصدیق کے تھیلیسمیا اور دیگر جنیٹک بیماریوں کو فروغ دے رہی ہیں ۔ خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ ڈی این اے لیب اور پی ٹی پی سی پروگرام کے لئے آئندہ کی ضروریات اور تمام ڈویژنل سطح پر مزید سینٹرز قائم کرنے کے سلسلہ میں تجاویز اور اخراجات کا تخمینہ محکمہ کو جلد ارسال کر دیا جائے تاکہ نئے سال کے اے ڈی پی میں اس کو شامل کر دیا جائے ۔