بنوں (آئی این پی )پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ بلین ٹریز سونامی منصوبہ پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کے تحت اب تک اربوں روپے کی خطیر رقم سے 80کروڑ پودے لگا ئے جا چکے ہیں اورخیبر پختونخوا حکومت کی پانچ سا لہ مدت میں ایک ارب پودے لگا ئے جائیں گے، خیبر پختونخوا حکومت نے اربوں روپے کی 60ہزار کنال مقبوضہ اراضی واگزار کرالی ہے جس پر اب پودوں
کی کاشت جاری ہے ، موجودہ صوبائی حکومت سے 10سال پہلے 2سو ارب روپے کے درخت چوری کاٹے گئے اورٹمبرمافیا جنگلات کو ختم کرنے پر تلا ہوا تھا جس کی وجہ سے پاکستان گلوبل وارمنگ میں ساتویں نمبر پر ہے لیکن ہم نے ٹمبر مافیا پر ہاتھ ڈال کراس کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا ہے پہلی بار بیرون ممالک سے پاکستان درخت درآمد کئے گئے ہیں صوبائی حکومت کے اس منصوبے کے تحت پانچ لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع ملے ہیں اور اس منصوبے کی نگہداشت بھی کی جا رہی ہے صوبے کو 93فیصد بجٹ وفاقی حکومت سے ملتا ہے جب وفاق کی طرف سے ہمیں فنڈز نہیں ملتے تو صوبے کو مسائل پیش آتے ہیں۔ وہ بدھ کو اپنے ہنگامی دورہ بنوں کے موقع پر علاقہ بھراتی مچن خیل غوریوالہ ضلع بنوں میں بلین ٹریز سونامی منصوبے کا معائنہ کرنے کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ فاٹا علاقہ جات کی ترقی کیلئے صوبے میں انضمام کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں کیونکہ فاٹا علاقہ جات دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان کی کوئی اپنی آواز ہی نہیں اوروہ ایک کالے قانون کے تحت اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اگر ان لوگوں کو صوبائی اسمبلی میں صحیح معنوں میں نمائندگی دی جائے تو ان لوگوں کی اپنی آواز اور اپنا اختیار ہوگا اور یہ بھی تر قی کی راہ پر گامزن ہو نگے
انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام کے حوالے سے ایک ریفرنڈم کا واویلا کیا جا رہا ہے اور مولانا فضل الرحمن کی سیاست تو ماضی کا حصہ بن چکی ہے اب ان کے شور کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہم جانتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کی اپنی روایات ہیں اور یہی وہ چاہتے بھی ہیں کہ ان کی قبائلی روایات کے مطابق انضمام کا فیصلہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ وفاق نے بہت بڑی غلطی کی کہ فاٹا انضمام کے حوالے سے پانچ سال کا عرصہ مانگا اس حوالے سے فاٹا کے لوگوں سے مشاورت ہونی چاہئے لیکن وفاق نے تو خیبر پختونخوا حکومت سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی۔ فاٹا کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ صوبے میں ضم ہو جائیں۔کچھ لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ انضمام کے بعد ایسا نہ ہو کہ سوات اور دیر کی طرح وہ لاوارث نہ رہ جائیں لیکن ان کو مکمل اختیار اور سہولیات دینی چاہیے۔