پاکستان کے معروف کالم نگار نوید مسعود ہاشمی لکھتے ہیں کہ میں زندگی میں پہلی مرتبہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے کورٹ نمبر3 میں داخل ہوا تو تلاوت کلام پاک شروع تھی ۔۔۔ کلام الٰہی کی تلاوت کی برکت سے کمرہ عدالت کا ماحول انتہائی بابرکت لگ رہاتھا ۔۔۔ میرا اسلام آبادکی عدالت میں آنے کا مقصد اس شخصیت کی زیارت کرنا تھا ۔۔۔ کہ منگل کے دن سینئر قانون دان طارق اسد ایڈووکیٹ کی سوشل میڈیا پر گستاخانہ پیجز کے خلافدائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران جس کی
آنکھیں محبت رسولﷺ میں بار بار روئی تھیں ۔۔۔ منگل7 مارچ کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایمانی جذبات سے بھرپور ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے جب سے یہ گستاخانہ صفحات دیکھے ہیں‘ میری نیند اڑ گئی ہے ۔۔۔ میری جان ‘ میرے والدین اور عہدہ سب ناموس رسالت پر قربان ہیں ۔۔۔ ناموس رسالت کے قانون پر عمل نہ کرنے سے ہی ممتاز قادریؒ جنم لیتے ہیں ۔۔۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ تحریروں پر مبنی پیجز چلانے والے اور ان پر خاموشی اختیار کرنے والے بھی مجرم ہیں۔ اس کیس کا مدعی پورا پاکستان ہے‘ اگر آقاﷺ کی حرمت و ناموس کے لئے سوشل میڈیا کو بند کرنا پڑا تو اللہ کی قسم اس کا حکم بھی جاری کر دو ں گا ‘‘۔۔۔ گستاخ بلاگرز کی حامی عاصمہ جہانگیر کی کمرہ عدالت میں موجودگی کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فرمایا کہ ’’یہاں لوگوں کو ویلنٹائن ڈے تو بہت یاد رہتاہے ۔۔۔اور انسانی حقوق نظر آجاتے ہیں ۔۔۔ لیکن قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی گستاخ مارا جاتاہے ۔۔۔ تو پھر اس مارے جانے والےگستاخ کی یاد میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں ۔۔۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ایمان افروز ریمارکس میں مختلف حکومتی اداروں کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’پی ٹی اے والو ۔۔۔ پولیس والو۔۔۔ فوجیو! نبی کریم ﷺ اور ان کے اہل بیتؓ اطہار کے بارے میں غلیظ ترین مواد سوشل میڈیا پر موجود ہے لیکن آپ لوگوں نے خاموش رہ کر اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے ‘ روز محشر کس طرح نبی ﷺ کی شفاعت طلب کرو گے؟
یہ سب کہتے ہوئے جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایک گھنٹہ کی سماعت کے دوران بار بار آبدید ہ ہو جاتے رہے ‘ ان کا کہنا تھا کہ گستاخان رسولؐؐ دہشت گرد ہیں۔‘‘ بدھ کے دن میں نے انصاف کی کرسی پر تشریف فرما عشق مصطفی ﷺ سے سرشار جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ صرف بہادر ‘ دلیر‘ جرات مند‘ دیانت دار اور شریف النفس ہی نہیں بلکہ ایک سچے اور کھرے عاشق رسول ﷺ بھی ہیں
دلیر اور شریف ججز دنیا میں اور بھی بہت ہوں گے ۔۔۔ مگر محبت رسولﷺ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی سب پہ بازی لے گئے۔۔۔ بدھ کے دن سیکرٹری داخلہ‘ آئی جی اسلام آباد اورچیئرمین پی ٹی اے بھی عدالت کے کٹہرے میں موجود تھے۔ جسٹس شوکت عزیز صد یقی نے کیس کی سماعت کے دوران ایک دفعہ پھر ایمان و ایقان کے لہجے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کی توہین نہ روکی گئی
تو پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔۔۔ اب اس معاملے پر ایک لمحے کی بھی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔۔۔ کائنات کی مقدس ترین ہستیوں کی شان میں گستاخیا ں کرنے والے شیطانوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ۔۔۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ مسلمان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو ۔۔۔ آقاﷺ کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا ۔۔۔ کیوں کہ انہوں نے ہی ہماری شفاعت کرنی ہے۔ لبرل فاشٹ‘ مذہبی انتہا پسندوں سے زیادہ
خطرناک ہیں ۔۔۔ اور یہ پاکستان کو سیکس فری سوسائٹی بنانے کی ایک گھناؤنی سازش ہے ‘ آج یہ ملک ‘ یہ کائنات ہم سب ‘ آقا ﷺ کے وسیلے سے ہی تو ہیں ۔۔۔ جن کے واسطے یہ کائنات بنی‘ انہی پر بیہودہ الزامات لگائے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مقدس ترین شخصیات کی شان میں گستاخی کا معاملہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے اہم مقدمہ ہے‘‘۔۔۔ مرد مومن ‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی تو آبدیدہ تھے ہی ۔۔۔
مجھے محسوس ہوا کہ ان کے محبت رسولﷺ میں گُندھے ہوئے ریمارکس سن کر میری آنکھیں بھی آپ ہی آپ اشکبار ہوچکی ہیں ۔۔۔ میں نے اپنے آنسو چھپانے کی خاطر جلدی سے دائیں طرف منہ کرکے آنکھیں صاف کرنے کی کوشش کی تو میرے دائیں طرف کھڑے وکلاء بھی ٹشو پیپرز سے اپنی آنکھیں آنسو صاف کررہے تھے‘ کمرہ عدالت میں موجود شاید ہی کوئی آنکھ ہو کہ جو اشکبار نہ ہو۔ سینئر وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ کی سوشل
میڈیا پر گستاخانہ پیجز چلانے والے شیطانوں کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت آج پیر کے دن ایک دفعہ پھر ہوگی ۔۔۔ یہ اہم ترین مقدمہ آگے چل کر کیا نتائج دیتا ہے ۔۔۔ یہ تو آنے والے دن بتا ہی دیں گے ‘ لیکن اس مقدمے نے ایک کمال تو کر دکھایا ۔۔۔ یعنی اعلیٰ عدلیہ کی دنیا سے ایک ایسا سچا عاشق رسول ﷺ ڈھونڈ نکالا کہ جس پر صرف عدلیہ کی تاریخ ہی نہیں بلکہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان بھی ہمیشہ فخر کرتے
رہیں گے‘ منبر و محراب سے عشق مصطفیﷺ کے حوالے سے واعظ و تلقین کے مناظر دیکھنے میں آتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔ مگر مسند انصاف پر تشریف فرما جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جس سوزو گداز میں ڈوب کر عشق مصطفی ﷺ کا اظہار کیا ۔۔۔ وہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامیان عالم کے لئے نئی راہیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ افسوس صد افسوس کروڑوں مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی
مسلم لیگ ن کی حکومت توہین رسالت کے مرتکب بدمعاشوں کو پکڑنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ‘ تمام حکومتی ادارے ‘ وزارت داخلہ ہو یا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوان ۔۔۔ وہ بھی گستاخان رسول کی شیطانی حرکتوں کی مذمت کرنے میں مکمل ناکام رہی ۔۔۔ غیر ملکی کرکٹ کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہنے پر ۔۔۔ عمران خان پر فتوے لگانے والے لبرل فاشٹ اینکرز ‘ اینکرنیوں ‘ دانش فروشوں اور سیاست دانوں کی فوج ظفر موج بھی
گستاخانہ پیجز چلانے والے ولدالحراموں کی مذمت کرنے یا ان کے خلاف آواز حق بلند کرنے میں مکمل ناکام رہے ‘ ہاں البتہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے سب سے پہلے اس مسئلے کو عدالت کے سامنے پیش کرکے ۔۔۔ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس مقدمے کو تاریخ کا سب سے بڑا حساس مقدمہ قرار دیکر اور یہ کہہ کر کہ ’’اتنی گستاخی کے بعد ہم ابھی تک زندہ کیوں ہیں ‘ اللہ کو گواہ بناکر کہتا ہوں اگر اپنے آقا ﷺ ‘ ازواج مطہرات‘ اصحاب رسول ﷺ اور قرآن کریم کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لئے مجھے اپنے ماں باپ‘ جان اور اپنے عہدے کی قربانی دینا پڑی تو دوں گا‘‘ ملت اسلامیہ کی لاج رکھ لی۔