منگل‬‮ ، 26 اگست‬‮ 2025 

’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘

datetime 12  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (آن لائن)جمہوریت کے علمبردار اوراردو زبان کے انقلابی شاعر حبیب جالب کی 24برسی اتوار کو انتہائی عقیدت و احترام سے منائی گئی ۔ تفصیلات کے مطابق جمہوریت کے فروغ کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے والے اپنے دور کے انقلابی شاعر حبیب جالب کی برسی منائی گئی،ان کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ وہ 24 مارچ 1928کو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ جالب نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ 1962میں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف

اپنی مشہور نظم دستور کہی جس کا یہ مصرع ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا پورے ملک میں گونج اٹھا۔بعد ازاں جالب نے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک رہے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔ انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو ضیاالحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔جالب کو کئی مرتبہ جیل میں سزا بھی کاٹنی پڑی تاہم انہوں نے شاعری نہیں چھوڑی۔ ایک مرتبہ جیل میں ان سے کہا گیا کہ انہیں کاغذ اور قلم فراہم نہیں کیا جائے گا جس پر انہوں نے جواب دیا میں آپ کے محافظوں کو اپنے شعر سنائوں گا اور وہ اسے دیگر افراد کو سنائیں گے اور اس طرح یہ لاہور تک پہنچ جائیں گے۔ان کے شعری مجموعوں میں برگ آوارہ، سر مقتل، عہد ستم، حرف حق، ذکر بہتے خون کا عہد سزا، اس شہر خرابی میں، گنبد بے در، گوشے میں قفس کے، حرف سر دار اور چاروں جانب سناٹا شامل ہیں۔

حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں مس 56، ماں بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا، یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج اور انسان شامل ہیں۔ کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لئے باعث اعزاز تھا۔حبیب جالب کا انتقال 12 مارچ 1993کو لاہور میں ہوا اورقبرستان سبزہ زار سکیم لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سپنچ پارکس


کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…