اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اپنی اعلیٰ صفات کی وجہ سے پہچانےجانے والے سانحہ مال روڈ چیئرنگ کراس میں شہید ہونے والے ڈی آئی جی کیپٹن(ر)سید احمد مبین زیدی تو اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے مگر وہ آج بھی زندہ ہیں کیونکہ شہید کبھی مرتے نہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ’’ اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو
بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘۔ ، حلیم طبع ،خدمت خلق ، سادہ مزاج اور قانون کی پاسداری اور احترام کے باعث آج بھی ان کا نام بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ قوم کا محافظ بیٹا مادروطن پر جان نچھاور کر کے مٹی کا حق تو ادا کر گیا وہیں اس کی یادیں آج بھی دلوں میں کچوکے لگاتی ہیں۔سانحہ مال روڈ میں شہید ہونے والے کیپٹن (ر) سید احمد مبین شہید کی بہن مسز ثروت قسیم اپنے بھائی کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”بچپن میں دونوں کے گھر سے باہر جانے پر پابندی عائد تھی لہٰذا ہم دونوں بہن بھائیوں نے مل کر گڑیوں سے بھی کھیلا ہے اور ہم نے کرکٹ سے لے کر ہاکی بھی اکٹھے ہی کھیلی ہم صرف دو بہن بھائی تھے اور احمد مجھ سے چھوٹا تھا ، وہ میرا بھائی ہی نہیں تھا بلکہ میری سہیلی بھی تھا۔ میٹرک کے بعد وہ جے سی بی کی تعلیم کی طرف چلا گیا اور اسی کے بعد اسی شعبہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ والد کی وفات کے بعد مبین والدہ کو لے کر لاہور آگیا تھا۔ میری بھی شادی ہوگئی، میری شادی کے سات سال بعد مبین نے والدہ کی منتخب کردہ اپنی خالہ زاد کے ساتھ شادی کر لی ۔ مبین کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، مبین کو بیٹےکی بہت زیادہ خواہش تھی جس کیلئے لئے اللہ سے دعاگو رہتا تھا اور اللہ نے اس کی دعائوں کو قبولیت بخشی اور تین بیٹیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔
دونوں میاں بیوی نے مل کر اپنے بچوں کے نام رکھے تھے۔ مبین کی سروس کو تقریباً بیس سال گزر چکے تھے لیکن اس کے دروازے ہر ایک آنے والے کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے، میرا بھائی بہت بہادر اور نڈر تھا اسے بہت دھمکیاں مل رہی تھیں لیکن وہ یہ کہتا تھا کہ میںنے پولیس اس لیے جوائن کی ہے تا کہ اس محکمے کے منفی اور غلط تاثر کو ختم کر سکوں
جس کی وجہ سے لوگ پولیس سے متنفر ہیں۔ مبین شہید کی بہن مسز ثروت قسیم کہتی ہیں کہ میرا بھائی ایک درویش صفت انسان تھا اس میں مادیت ذرا بھی نہیں تھی اور نہ ہی اسے پیسے کی چاہ تھی، یہ دنیا اس کے لیے بنی ہی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بہت جلد اپنے پاس بُلا لیتا ہے ، وہ اپنی 45 سال کی مختصر زندگی میں پانچ سو سالوں کے کام کر گیا ہے،
مبین نے کوئی زمینیں یا جائیدادیں نہیں بنائی اسے کھانے کو جودیا جاتا وہ کھا لیتا تھاتاہم مٹن بہت شوق سے کھاتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ملنگ صفت مبین شہید نے کبھی اپنے پہناوے پر خاص توجہ نہیں دی وہ جو بھی پہن لیتے وہ ان پر جچنے لگتاایسا لگتا تھا کہ یہ کپڑا صرف انہیں کے لیے بنا ہے۔ شہید سید احمد مبین زیدی کی بیٹی دعا مبین اپنے والد کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ
مجھے بابا بہت پیار کرتے تھے، ابو کی شہادت کے بعد جب میں اسکول گئی تو میری ایک دوست نے کہا کہ تمہارے بابا مر گئے ہیں ؟تو میں نے اسے کہا کہ ’’چپ کرو شہید مرتے نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہیں اور ایسا میں نہیں قرآن کہہ رہا ہے‘‘۔ دعا کا کہنا ہے کہ میرے بابا ہر وقت میرے ساتھ ہیں اور میری ان سے خواب میں کئی بار ملاقات ہو چکی ہے،ایک واقعہ سناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے یاد ہے میں نے بابا کو ایک کارڈ دیا تھا اپنی شہادت والے دن بابا میرے خواب میں آئے انہوں نے یونیفارم پہن رکھا تھا اور مجھے کارڈ واپس کرتے ہوئے بولے’’ اللہ حافظ بیٹا! اپنا بہت خیال رکھنا۔‘‘