خودکش حملہ ، ٹیکسی ڈرائیور نے ایسا کیا کیا کہ لوگ عش عش کر اٹھے؟ جان کر آپ بھی خراج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکیں گے

15  فروری‬‮  2017

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حادثات اور سانحات لوگوںکو کیسے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور وہ کیسے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اس کی تازہ مثال سانحہ لاہور کے خودکش دھماکے کے دوران دیکھنے کو ملی جب ایک ٹیکسی ڈرائیور نے ایک خاتون کے محافظ کا کردار اداکیاجبکہ کریم اور اوبر ٹیکسی سروس نے خون کے عطیات دینے والوں کو ہسپتالوں تک فری سروس فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پروموکوڈز متعارف کرا دئیے

اور اپنے دیگر مہنگے آرڈرز منسوخ کر دئیے ہیں۔منیرامہدی نامی خاتون نے سوشل میڈیا پر تمام کہانی سناتے ہوئے کہا ہے کہ کیسے کریم ٹیکسی سروس کا ڈرائیور اس کیلئے ایک ایسے مشکل اور دردناک وقت میں خطرے سے بھرپور علاقے میں کھڑا ہوگیااور ناقابل یقین طور پرمحافظ کا کردار ادا کیا۔ منیرا نے سوشل میڈیا پر کریم ٹیکسی سروس کے نام اپنے پیغام میں لکھا ہےکہ ’میں آپ کی توجہ آپ کے ہی ایک محافظ فرشتے کی طرف مبذول کراناچاہتی ہوں جس کا نام عاصم مصطفی ہے جس نے کریم کے کپتان کا بہروپ دھار رکھاہے، میں دھماکے سے چند لمحے قبل مال روڈ سے جوہرٹاؤن کیلئے گاڑی میںٹیکسی میں بیٹھی تھی کچھ سفر طے کیا ہی تھا کہ دھماکے کی خبر ملی ، اب ڈرگئی تھی کہ اب واپس اپنی رہائش جو ہوٹل میں تھی پر کیسے پہنچوں گی کیونکہ وہ ہوٹل دھماکے کی جگہ کے بالکل پاس ہے جبکہ شہرمیں اجنبی اکیلی خاتون تھی ۔مسافر ہونے کی وجہ سے مجھے بحفاظت واپس پہنچنے کی پریشانی تھی، میں نے ڈرائیور کو واپس مڑ کر اسی مقام پر چھوڑنے کی درخواست کی جہاں سے اٹھایاتھا تودھماکے کا علم ہونے کے باوجودوہ فوری رضامندہوگیا،مجھے کراچی میں اپنے عزیزوں اور دفتری ساتھیوں سے فون کالز کا سلسلہ جاری تھا لیکن میری امیدیں ایک اجنبی شخص سے تھیں جو کہ ایک کار ڈرائیورتھا،

میں نے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا کہ اس نے اپنا فیصلہ نہیں بدلہ اوررائیڈ ختم کرتے ہوئے مجھے واپس چھوڑ دیا‘۔مال روڈ کئی سومیٹرز تک ہرطرف سے سیل تھا لیکن ڈرائیور نے ہرممکن حدتک مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے مجھے ہوٹل کے قریب ترین مقام پر چھوڑنے کی کوشش کی لیکن وہاں کوئی راستہ نہیں تھا لہٰذا اس نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور جیسے ہی میں نے پیدل اپنے ہوٹل پہنچنے کا سوچاتو ڈرائیور نے کہا’باجی آپ فکر نہ کریں،

آپ میری ذمہ داری ہیں،میں آپ کو پیدل ڈراپ کرکے آؤں گا، چاہے کچھ بھی ہوجائے ، میں آپ کو صحیح سلامت پہنچاؤں گا‘ اور پھر گاڑی سے باہر نکل آیا اور تقریباً 10منٹ تک پیدل چلتے رہے جس کے بعد میں اپنی منزل پر پہنچ گئی جبکہ اسے بھی اس خطرناک علاقے کو جلد ازجلد چھوڑنے کے لیے مسلسل ٹیلی فون کالز آرہی تھیں لیکن اس کے باوجود مجھے بحفاظت اپنی جگہ پر پہنچایا، میرے پاس شکراداکرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں، الحمد للہ۔میری دعا ہے کہ اسے اس نیکی کا اجراس زندگی اور آخرت میں ملے ۔آمین

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…