لاہور (اے این این) محسن پاکستان اورنامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدید خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت 1983ءمیں ہی حاصل کرلی تھی اور اس وقت ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا لیکن افغان جنگ کے باعث جنرل ضیاءالحق نے اسے ملتوی کردیا۔ آج تک حکومت سےکوئی مراعات حاصل نہیں کی، کرپٹ سیاست دانوں اوربیوروکریٹس نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا۔
اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مزید کہا کہ جب ہندوستان نے 1973ءمیں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مجھے ہالینڈسے بلایا اور مجھے کہاکہ ہمیں ہر صورت میں ایٹمی بم بنانا ہے جس پر میں نے کہاکہ کوئی بات نہیں ہم ایٹمی بم بنا دیں گے اور ہم نے جگہ منتخب کرکے ایٹمی ٹیکنالوجی کا آغاز کیا لیکن بعض حالات کی وجہ سے یہ منڈیر نہ چڑھ سکااورمیں بھی واپس چلاگیا لیکن جب جنرل ضیاءالحق حکومت میں تھے ایک بار پھر مجھے بلایا گیا اورایٹمی بم بنانے کا کہا۔ پاکستان کی خاطر اپنی کشتیاں جلا کر اپنے بچوں کے ہمراہ آیا تو دیکھا جو میں کام شروع کیا تھا وہ ا سی طرح کا پڑا ہواہے جس پر مجھے بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ جب ضیاءالحق نے مجھے کام سونپا تو چند سالوں میں اسے پایا تکمیل تک پہنچا دیا۔میں نے مکمل کرکے ضیاءالحق کی میز پررپورٹ رکھی اورکہاکہ آپ جب کہیں گے ایٹمی بم کا دھماکہ کردیں گے جس پر جنرل ضیاالحق بہت حیران ہوئے اور افغان وار کے پیش نظر ہمارا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا لیکن جب بھارت نے1998ءمیں دوبارہ ایٹمی دھماکہ کیا تو ہم نے بھی اعلان کردیا کہ ہم بھی اپنے ایٹمی دھماکہ کریں گے۔
پوری دنیا میں ہلچل پیدا ہوگی اورامریکہ یورپ سمیت دنیا بیشتر ممالک ہمیں ایٹمی دھماکہ نہ کرنے پر زور ہی نہیں بلکہ دھمکیاں بھی ملنے لگی اور ڈالر کا لالچ بھی دیا گیا لیکن ہمیں پاکستانی عوام کا بہت پریشر تھا، ہم اسی شش وپنج میں مبتلا تھے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے لیکن سب نے اتفاق کیا پاکستان کو بچانا ہے تو دھماکہ کرنا ہی پڑے گا۔
اگر ملک میں آٹو موبائل فیکٹریاں قائم کی جاتی تو آج ہم امریکہ، جاپان اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوتے لیکن کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹ ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیا۔ اگر بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانی زرمبادلہ نہ بھیجیں تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے اوورسیز پاکستانیوں نے پاکستان کی معشیت کو سنبھال رکھا ہے۔