اسلام آباد(آئی این پی ) حکومت نے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ایک تاریخی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے پلی بارگین کرنے والوں کو تاحیات نااہل قرار دینے کی تجویز منظور کرلی،وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاہے کہ نیب آرڈیننس سیکشن 25اے میں ترامیم کے حوالے سے قوانین جائزہ کمیٹی کی جانب سے تیا ر کی گئی سفارشات کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور آج رات آرڈیننس جاری ہوجائے گا اور نیا قانون کل سے نا فذالعمل ہو گا،نئے آرڈیننس کے تحت پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی والی شقوں کو ضم کیا گیاہے،رضاکارانہ واپسی( والنٹیری ریٹرنز) کے حوالے سے عدالت کی منظوری ضروری ہوگی اور اس حوالے سے چئیرمین نیب کی صوابدید کو ختم کیا گیاہے،پلی بارگین کے تحت 10سال کے لئے نا ہلی کی شق کو ختم کرکے تاحیات پابندی لگائی جارہی ہے ، کرپشن میں ملوث ہونے پر سرکاری ملازمت پر تا حیات پابندی ہو گی ، قا نون میں مزید بہتری پارلیمنٹ کی جانب سے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کرے گی اور اس کی سفارشات کو خوش آمدید کہاجائے گا، ایف بی آر کے محصولات میں شارٹ فال کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو مکمل طورپر عوام کو منتقل نہ کرنا ہے، ٹیکس ریٹرنز میں اضافہ ہو رہا ہے اور اشیاء کی قیمتوں میں استحکام ہے،وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ یہ ایک تاریخی ترمیمی آرڈیننس ہے ‘ 2013 مسلم لیگ (ن) کا منشور میں کرپشن اور احتساب سے متعلق پورا ایک چیپٹر ہے، بنیادی اصول یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کرپشن پر زیرو ٹالرنس پر یقین رکھتی ہے،وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے کہا کہ حکومت کی خواہش تھی احتساب کا ایسا نظام لایا جائے جس کے تحت سب کا یکساں احتساب کیا جا سکے ۔ ہفتہ کو وزیر خزانہ نے قوانین جائزہ کمیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 25اے کے حوالے سے کافی زیادہ خبریں آرہی تھیں اور میڈیا میں مباحثہ چل رہا تھا۔قوانین جائزہ کمیٹی نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو نیب آرڈیننس سیکشن 25اے میں ترامیم کے حوالے سے سفارشات پیش کردی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے گورنمنٹ کا موقف وزیراعظم صاحب نے لاء ریویو کمیٹی جو وزیر قانون‘ وزیر مملکت آئی ٹی‘ وزیراعظم کے دونوں سپیشل اسسٹنٹس اور وزیر خزانہ کو ٹاسک دیا تھا کہ ہم اس کو ریویو کریں اور حکومت کو ضروری مشورہ دیں کہ کیا کرنا چاہئے۔ اس کے دو حصے ہیں ایک پلی بارگین ہے۔ عدالت کی منظوری ضروری ہے ٹائم بار بل ہے اگر وہ پبلک آفس ہولڈر ہے تو الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ دوسرا حصہ رضاکارانہ واپسی (والنٹیری ریٹرنز )یا وی آر پر مشتمل ہے اس کے حوالے سے عدالت کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جرمانہ ہے یہ نہیں کہ اتنے سال آپ سروس میں نہیں آسکتے یا الیکشن نہیں لڑ سکتے اور پبلک آفس ہولڈ نہیں کرسکتے۔ ریویو کمیٹی کے اجلاس ہوئے اور ہم نے جمعہ کے روز وزیراعظم نواز شریف کو سفارشات پیش کردیں ہیں کہ پچیس اے میں ترامیم اس طرح کی جائیں پلی بارگین یا والنٹیرین ریٹرن دونوں ہوں عدالت کی منظوری بھی ہو اور ڈس کوالیفیکیشن کا مسئلہ بھی ہو۔ دونوں ایک جیسی ہوں ان میں کوئی امتیازی بات نہ ہو۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کمیٹی نے لائف ٹائم پابندی کی سفارش کی ہے یہ انتہائی پوزیشن ہے اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کرپشن ہوئی ہے تو عمر بھر کی پابندی ہو۔ وزیراعظم نے اصولی طور پر اس کی منظوری دے دی ہے اور اس پر لائف ٹائم پابندی ہو گی وہ پبلک آفس ہولڈ یا سول سروس میں واپس نہیں آسکے گا۔ یہ آئینی اور مشکل پراسیس ہے جسے فالو کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی اجازت سے کابینہ کی منظوری حاصل کی گئی ہے جو کہ قانونی اور آئینی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے یہ قانون نافذ کیا جارہا ہے یہ انتہائی ضروری مسئلہ ہے اسے اگر سادہ بل کے ذریعے پیش کریں تو اس میں کافی وقت لگے گا پہلے پارلیمنٹ کا ایک ہاؤس اس کی منظوری دے گا جبکہ 29جنوری تک قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہورہا ہے۔ اجلاس اس تاریخ سے آگے پیچھے بھی ہوسکت اہے اس کے بعد دوسرا ہاؤس سینٹ اسے منظور کرے گا اس سے وقت ضائع ہوگا۔ اس کے لئے وزیراعظم کی ہدایت پر یہی فیصلہ ہوا ہے کہ تمام طریقہ کارکو پورا کیا جائے جو پوری ہوچکی ہیں اور بعض پراسیس میں ہیں۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آرڈیننس کے ذریعے ترامیم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے عدالت سے بھی رہنمائی لی ہے اس لئے رات بارہ بجے سے آرڈیننس کے تحت ترامیم ہوجائیں گی اگر پارلیمنٹ اس میکں کوئی تبدیلی لانا چاہے گی تو حکومت اس کو بھی زیر غور لائے گی حکومت اس فیصلے کو عوام سے شیئر کررہی ہے۔ عدالت نے حکومت سے پوچھا ہے کہ وہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 25اے سے متعلق کیا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس پیر کو سینٹ میں پیش کردیا جائے گا پارلیمنٹ اگر مزید تبدیلی لانا چاہے تو حکومت اس کا بھی خیر مقدم کرے گی حکومت کرپشن کے حوالے سے انتہائی سزا اس آرڈیننس کے تحت دے گی۔اس موقع پر وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ یہ ایک تاریخی ترمیمی آرڈیننس ہے ‘والنٹیریری ریٹرنز کے حوالے سے چیئرمین نیب کی صوابدید ہے کہ وہ اسے تسلیم کریں۔ اس میں عدالتی پابندی بھی نہیں ہو تی۔ پلی بارگیننگ میں عدالتی منظوری ہوتی ہے اور وہ 10 سال کے لئے ڈس کوالیفائی ہوتا ہے۔ 2013ء میں شائع ہونے والا مسلم لیگ (ن) کا منشور میں کرپشن اور احتساب سے متعلق پورا ایک چیپٹر ہے۔ اس میں بنیادی اصول یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کرپشن پر زیرو ٹالرنس پر یقین رکھتی ہے ۔ اس منشور پر عمل کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ تجاویز پیش کی جائیں کہ کس طرح ترامیم کی جائیں۔ اس ہدایت کی روشنی میں وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کی سربراہی میں قوانین مانیٹر کمیٹی کے اجلاس ہوئے اور پروپوزل تجویز کئے گئے۔ اب کابینہ نے منظوری دی ہے اور آرڈیننس کی شکل میں شائع جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بارگین کا لفظ بھی غلط ہے کیونکہ کرپشن کرنے والا اگر خود سرنڈر کرتا ہے اور پیش ہو جاتا ہے تو اس میں بارگیننگ نہیں ہونی چاہیے ۔ پلی بارگیننگ اور والیٹریری ریٹرنز کی شقیں مدغم کر دی گئی ہی۔دونوں صورتوں میں اگر کرپشن کرنے والا رضا کارانہ طور پر واپس کرنا چاہتا ہے تواس میں عدالتی منظوری ہو گی اگر وہ پبلک آفس ہولڈر ہے تو اس پر مقدمہ چلے گا۔ وہ پبلک آفس پر براجمان نہیں رہ سکے گا بلکہ وہ پبلک آفس کے لئے نااہل ہو جائے گا۔ اسے نوکری سے برطرف کیاجائے گا اور نااہل قرار پائے گا۔ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے کہا کہ حکومت کی خواہش تھی احتساب کا ایسا نظام لایا جائے جس کے تحت سب کا یکساں احتساب کیا جا سکے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے کہاکہ کرپشن کے حوالے سے نئے قانون کو بہت سخت بنا دیا گیا ہے دنیا میں کرپشن کی روک تھام حوالے سے اس سے سخت کوئی قانون موجود نہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ نیب قانون میں بہتری کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں بہتری لائے۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے سانحہ آرمی پبلک کے بعد بڑا سو چ سمجھ کر پالیسی بنائی تھی۔ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے ضرب عضب کی ضرورت تھی۔ ان تمام اقدامات سے مثبت نتائج آئے ہیں اس حوالے سے قومی مفاد میں فیصلے کریں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے محصولات میں شارٹ فال کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو مکمل طورپر عوام کو منتقل نہ کرنا ہے۔ حکومت کو اس وجہ سے پچاسی ارب کا نقصان ہوا لیکن حکومت عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کیلئے خود یہ نقصان برداشت کر رہی ہے۔ ٹیکس ریٹرنز میں اضافہ ہو رہا ہے اور اشیاء کی قیمتوں میں استحکام ہے۔